اندیشہ
کس قدر شاداب تھا تازہ گلوں سے یہ چمن
کس قدر مہکی ہوئی تھی دوستو یہ انجمن
آج محفل کے مگر بدلے ہوئے حالات ہیں
ان نگاہوں میں کئی جلتے ہوئے ذرات ہیں
سینۂ تہذیب سے گرنے لگا ہے پھر لہو
بھر نہ جائیں زہر قاتل سے کہیں جام و سبو
اڑ نہ جائے چہرۂ انسانیت سے رنگ و بو
ہمدمو ارزاں نہیں ہوتی وطن کی آبرو
اپنی آزادی سنہرے خواب کی تعبیر ہے
کتنی ہی قربانیوں کی بولتی تصویر ہے
عظمت ہندوستاں یارو کہیں کم ہو نہ جائے
دوستو یہ روشنی ظلمت میں پھر ضم ہو نہ جائے
دامن گل خون کی بوندوں سے پھر نم ہو نہ جائے
صحن گلشن میں کہیں نم دیدہ شبنم ہو نہ جائے
ساز کے پردوں میں ضم نغمات کی ہو زندگی
پھر نسیم صبح سے آئے گلوں میں تازگی
پھول اور کانٹے رہیں گے گلستاں کے ساتھ ساتھ
چاند اور تارے رہیں گے آسماں کے ساتھ ساتھ
امن کی تقدیر ہے ہندوستاں کے ساتھ ساتھ
ان گنت پھولوں سے کھلتا ہی رہے گا گلستاں
رک نہیں سکتا کبھی یہ زندگی کا کارواں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.