اندھے پجاری
یہ کون لوگ سر میکدہ پہنچ آئے
چھلک رہا ہے لہو ہی لہو ایاغوں سے
یہ کون لوگ ہیں جو زندگی کے محلوں کو
سجانے آئے ہیں بجھتے ہوئے چراغوں سے
برس رہا ہے اندھیرا جبیں کے داغوں سے
یہ کون لوگ ہیں جو آفتاب سے چھپ کر
پرانی شمعوں پہ نظریں جمائے پھرتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں جو ارتقا کی منزل میں
نئی حیات سے دامن بچائے پھرتے ہیں
روایتوں کے جنازے اٹھائے پھرتے ہیں
انہیں پسند نہیں شاخ گل کی رعنائی
سلوک باد چمن ناگوار ہے ان کو
بھٹک رہے ہیں یہ ماضی کے ریگ زاروں میں
بہار نو کا تصور بھی بار ہے ان کو
جو فصل بیت چکی اس سے پیار ہے ان کو
بھرا ہے عہد کہن کا غبار آنکھوں میں
انہیں گراں ہے نئی کائنات کا پرتو
یہ مندروں کے پجاری یہ مسجدوں کے امام
یہ تیرگی کے مسافر یہ رات کے رہرو
افق کو نوچ رہے ہیں کہ توڑ لیں مہ نو
ہوس کی قید میں ہے آبروئے لالہ و گل
چمن فروش بنے ہیں چمن کے رکھوالے
ذرا سنبھل کے چلے کاروان رنگ و نمو
کہ خار بیٹھے ہیں پھولوں کی چلمنیں ڈالے
صبا کے بھیس میں پھرتے ہیں لوٹنے والے
یہ لوگ حلقۂ دام خیال کہتے ہیں
فروغ علم کو سائنس کی ترقی کو
یہ کم نگاہ مداوائے درد انسانی
سمجھ رہے ہیں پراچین سنسکرتی کو
صدائیں دیتے ہیں صدیوں کی تیرہ بختی کو
زبان و فرقہ و مذہب کے غار میں یہ لوگ
ہوئے ہیں غرق کچھ ایسے ابھر نہیں سکتے
اٹے ہیں گرد میں جب تک دلوں کے آئینے
نئے نقوش میں ہم رنگ بھر نہیں سکتے
نگار ہند کے گیسو سنور نہیں سکتے
جلیں نہ روح میں جب تک محبتوں کے چراغ
طلسم تیرہ خیالی سے ہم نہ چھوٹیں گے
وہ لوگ معبد انسانیت کی سیر کریں
جو کہہ رہے ہیں کہ دیر و حرم نہ چھوٹیں گے
جو ضد میں ہیں کہ پرانے صنم نہ چھوٹیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.