راکھ کا ڈھیر ہوا جاتا ہے دیرینہ محبت کا الاؤ
تیرگی چھانے کو ہے سائے یہ منڈلاتے ہیں
بزم امکاں میں ابھی سے ہے اندھیرا ہر سو
اور اس آگ سے جی ڈرتا ہے
جسے پالا تھا مری روح کی تنہائی نے
تھک چکا ان کو شکایت بھی نہیں
اب فقط سینے میں ارمانوں کی افسردہ مہک باقی ہے
میری آنکھوں میں اب آنسو ہوں یا جلتے شعلے
ختم ہو جائے گا یہ سلسلۂ عہد وفا
زندگی اب تو بکھر جائے گی ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح
تیرگی چھانے کو ہے راہ پہ قدموں کے نشاں دھندلے ہوئے جاتے ہیں
مضمحل ہے رگ احساس کہ وہ شدت احساس یہاں ڈوب گئی
منزلیں کاٹ کے اس منزل نایاب تک آ پہنچا ہوں
میں جہاں کھو سا گیا ہوں وہی ناکامی کی منزل آئی
میرا انجام تو صدیوں کے سیہ داغ لئے آیا ہے
کہئے اس درد کو کس درد سے ٹکرانا ہے
کتنے ہی پردۂ ظلمات جنہیں چاک کریں گے ہم لوگ
تھم کے اک بار یہ طوفان اگر تیز ہوا
کتنے ہی کوہ گراں خاک میں مل جائیں گے
زندگی درد کے ہاتھوں سے سنور سکتی ہے
روشنی پردۂ ظلمت سے ابھر سکتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.