اندھیرا
ابھی روشن ہے یہ چراغ
تو یہ نہ سمجھو
کی اب اندھیرے کا
کوئی وجود ہی نہ رہا
کی وہ
روشنی کی تلوار سے کاٹ کر
میرا جا چکا ہے
اس دھوکے میں نہ رہنا
کی وہ ہمیشہ کی لیے
خریدہ جا چکا ہے
اس نے تو بس اک چالاک اور شاطر
سپاہ سالار کی طرح
اپنی پہلی ہار کو
پہلی بازی جیتنے والے دشمن کی
جگمگاہٹی وردی میں چھپا لیا ہے
اور اس کے خیمے میں
اس طرح گھل مل گیا ہے
جیسے اب اس کا اپنا کوئی وجود نہ ہو
لیکن دراصل وہ
سمایا ہوا ہے انہیں اجالوں کی ذات میں
اس چراغ کی جلنے کی وجہ بن کر
یہیں کہیں
اسی رات میں
بڑے صبر سے اس گھات میں
کہ کب یہ لو پڑے مدھم
اور وہ ٹوٹ پڑے
اک شہباز کی مانند
اپنے سیاہ ڈائنے پھیلائے
اور غنیمت کے کمزور فاخطے کو
اپنے چنگل میں دبوچ لے جائے
میری بات کا یقین نہ آئے
تو چند لمحوں کے لیے
کوئی یہ چراغ یہاں سے لے جائے
ابھی روشن ہے یہ چراغ
تو آندھیوں سے بچاؤ اسے
یہ نے سمجھاؤ کہ اب اندھیرے کا
کوئی وجود ہی نہ رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.