وقت شاہد ہے کہ ہر دور میں تہذیب کی مانگ
قتل گاہوں کے تبسم سے شفق رنگ رہی
جن کے خوں سے ہے رخ زیست کی رنگت ان کی
بھوک افلاس کی ناگن سے سدا جنگ رہی
جن کی محنت سے ہے محلوں کے مکینوں کا غرور
زندگی ان کے لئے دکھ کی اندھیری بستی
لوٹ قدرت کی مشیت ہے خدا کا منشا
اس کھلے جھوٹ کی تائید نہیں ہو سکتی
دھوپ کی آتشیں چادر میں جھلستا ہوا جسم
کتنی صدیوں سے ہے تاریخ تشدد کا جمال
حکم ہے مقتل و زنداں کے نگہبانوں کا
آدمیت کے تقدس کا اٹھاؤ نہ سوال
عشرت زیست مقید رہی ایوانوں میں
اہل محنت کے لئے درد کا سرمایہ ہے
چند افراد نے فطرت کا تقاضا کہہ کر
ظلم کو عشق کی تقدیر بنا رکھا ہے
خوف کے ابر سے انصاف کی شبنم برسے
اس حقیقت کی حقیقت کو کوئی کیا سمجھے
لوٹنے والے خدایان جہاں ٹھہرے ہیں
اس تمدن کے تقدس کو بھلا کیا کہئے
جھوٹ ہر سچ کی ہے بنیاد جہاں کیا کہئے
جرم اظہار صداقت ہے یہاں کیا کہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.