اندھراتا
میں پردہ گرانے لگا ہوں
پلک سے پلک کو
ملانے لگا ہوں
زمانہ مرے خوابوں میں آ کے
رونے لگا ہے
میں اونٹوں کو لے آؤں
آخر کہاں جا کے چرنے لگے ہیں
جہاں پر
پرندے پروں کو نہیں کھولتے ہیں
جہاں سرحدیں ہیں فلک جیسی قائم
وہاں پاؤں دھرنے لگے ہیں
میں اونٹوں کو لے آؤں واپس
میں بھیڑوں کو دوہ لوں
کئی ماؤں کی چھاتیاں
چھپکلی کی طرح
سوکھے سینے کی چھت سے
اک عرصے سے لٹکی ہوئی ہیں
انہیں جا کے موہ لوں
کئی فاختائیں
جو نکلی تھیں کہہ کر
کہ آئیں گی واپس
چمکتی دوپہروں سے پہلے
وہ مرگ آسا اندھے خلاؤں میں
بھٹکی ہوئی ہیں
گدھے والا
بے وزن روئی کو لادے ہوئے
شہر سے لوٹ آیا ہے
ہلکی تھی روئی
بہت بھاری دن تھا
طلا دوز تاجر نے موتی بھی
لانے کا اس سے کہا تھا
جو رنگیں عروسانہ جوڑے میں جڑنے ہیں
ناداں
دلہن کو بھی معلوم ہے
تیز بارش تو ہونی ہے
اولے تو پڑنے ہیں
نازک سی ٹہنی پہ جھولا ہے
جھولے کی رسی ہے نازک
سو رسی میں بل آخر کار پڑے ہیں
اندھراتا بڑھنے لگا ہے
مچھیرے کو دریا سے واپس بھی آنا ہے
تنور میں گیلی شاخیں جلانی ہیں
تنور کی طرح
خوابوں بھری جل رہی ہے
اسے بھی کشادہ بھرے بازوؤں میں تو آنا ہے!!
- کتاب : Quarterly TASTEER Lahore (Pg. 97)
- Author : Naseer Ahmed Nasir
- مطبع : H.No.-21, Street No. 2, Phase II, Bahriya Town, Rawalpindi (Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011)
- اشاعت : Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.