اپاہج دنوں کی ندامت
کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو
میں کھلوں جون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں
سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھلوں
خواہشوں
نیند کی جنگلی جھاڑیوں
اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھلوں
بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں
بہنوں کے سجدوں میں
ماں باپ کے بے زباں درد میں ادھ جلے سگرٹوں کا تماشہ بنوں
ہر نئی صبح کے بس اسٹاپوں پہ ٹھہری ہوئی لڑکیوں کی کتابوں میں
مصلوب ہونے چلوں
میں اپاہج دنوں کی ندامت بنوں
کھڑکیاں کھول دو
چھوڑ دو راستے
شہر بے خواب میں گھومنے دو مجھے
صبح سے شام تک شام سے صبح تک
اس اندھیرے کی اک اک کرن چومنے دو مجھے
جس میں بیزار لمحوں کی سازش ہوئی
اور دہلوں سے نہلے بڑے ہو گئے
جس میں بے نور کرنوں کی بارش ہوئی
بحر شب زاد میں جو سفینے اتارے بھنور بن گئے
خواب میں خواب کے پھول کھلنے لگے کھڑکیاں کھول دو
جاگنے دو مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.