نہیں یہ میں نہیں ہوں
میں نہیں ہوں
اور اگر یہ میں نہیں ہوں
کون ہے وہ
جو مجھے آواز دیتا ہے
مری ہی ذات کے اندھے کنویں سے
اور اگر یہ میں نہیں ہوں
کون تھا جو اب نہیں مجھ میں
وہ میں ہی تھا
جو کل
پانی پہ چلتا تھا
ہواؤں پر بھی میری حکمرانی تھی
بلندی سی بلندی بھی
بہت کم تھی
مری پرواز کے آگے
پرندوں کی زباں آتی تھی مجھ کو
گفتگو کرتا تھا میں ان سے
میں کل
آواز کے چہروں کو پڑھتا تھا
سمندر چاند سورج اور ستارے بھی
مرے قدموں میں اپنا سر جھکاتے تھے
مگر اب میں کہاں ہوں
ہاں وہ تم ہی تھے
مگر اب تم کہاں ہو
کوئی اب کیوں کر مجھے ڈھونڈے
میں خود کو کھو چکا ہوں
آسمانوں سے زمیں کا فاصلہ جتنا ہے
اتنا فاصلہ
خود میرے اپنے درمیاں کیوں آ گیا ہے
وقت دریا کی طرح چلتا رہا
اور یاں کسی نے بھی
مجھے روکا نہیں
اس سمت جانے سے
جہاں سے مڑ کے دیکھا تھا
تو میں پتھر بنا تھا
آج بھی پتھر بنا پھرتا ہوں ہر سو
اس زمیں پر
آسماں پر
اور خلاؤں میں
سمندر پر
ہواؤں میں
مری وحشت نے مجھ کو
ہر جگہ رسوا کیا ہے
اب کوئی آب بقا لا دے
کوئی میری خبر لا دے
کہاں ہوں میں
کہاں ہو تم
یہ اپنے آپ سے پوچھو
یہ اپنے آپ سے پوچھو
نہیں یہ میں نہیں ہوں
اور اگر یہ میں نہیں ہوں
کون ہوں میں
کون تھا وہ
کون ہے یہ
جو مرے اندر سے
رہ رہ کر مجھے
آواز دیتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.