اپنے بد گماں سے
اپنے بد گماں سے
تم سمجھتی ہو کہ میں سر خوش توفیق نشاط
آج ویسا ہی بلا کوش ہوں جیسے کبھی تھا
تم نے شاید یہ سنا ہے کہ اس اندھیری میں بھی
میں اسی طرح جلائے ہوں امنگوں کا دیا
اے مری جان وفا رنج کو راحت نہ کہو
ایک افسانۂ سادہ کو حقیقت نہ کہو
تم نے طنزاً یہ کہا ہے کہ مرا شغل ادب
مری تسکیں کا بہرحال سہارا ہوگا
اے مری طرفہ جفاکار وہ دن دور نہیں
جب مجھے میرا ادب جان سے پیارا ہوگا
آج لیکن سر بازار یہ دھن لٹتا ہے
نغمہ و شعر کا ہر سانس پہ دم گھٹتا ہے
آج ہر پھول کے پہلو سے دھواں اٹھتا ہے
نکہت و رنگ نہیں آج کا موضوع سخن
آج دل خستہ و مجہول ہے احساس جمال
آج اک بپھری ہوئی چیخ ہے فن کار کا فن
آج ہر صنف لطافت میں ہے بیوپار کا روپ
چاندنی کیا ہو جہاں کھل کے نکلتی نہ ہو دھوپ
زندگی کا یہ تذبذب یہ جمود وجدان
راہرو کے لئے اک موڑ ہے منزل تو نہیں
دور تفریط میں یہ کشمکش ذوق حیات
رخ بدلتی ہوئی اک دھار ہے ساحل تو نہیں
کیا کروں ایسی مسرت کا سہارا لے کر
پار جاتی نہیں کشتی بھی کنارا لے کر
ہاں یہ سچ ہے کہ یہاں مل گئے ہیں کچھ احباب
جن کو اب تک نہیں احساس جواں مرگیٔ دل
زندگی ان کے لئے رکھتی ہے کچھ امکانات
بھولے بسرے وہ سجا لیتے ہیں اپنی محفل
تم مگر خود ہی کہو آج کی دنیا کیا ہے
یہ تو سوچو کہ زمانہ کا تقاضا کیا ہے
آج انسان کی قسمت میں فراغت ہی نہیں
وقت وہ ہے کہ کوئی وقت کی قیمت ہی نہیں
یوں ہر اک جان پہ طاری ہے ضرورت مندی
سب ضروری ہے محبت کی ضرورت ہی نہیں
ایسے ماحول میں عنوان طرب کیا ہوگا
جب ہر اک سانس پہ کہتی ہو کہ اب کیا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.