Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنے دل کی شہزادی

سلام سندیلوی

اپنے دل کی شہزادی

سلام سندیلوی

MORE BYسلام سندیلوی

    اے میرے دل کی شہزادی شہزادی اور پھر دوشیزہ

    اے چاند ستاروں کی دیوی دیوی سے زیادہ پاکیزہ

    اے سبزہ زاروں کی ہرنی اے برکھا کی میٹھی کوئل

    اے صبح کے ماتھے کی شبنم اے شام کی آنکھوں کا کاجل

    اے خواب کی ملکہ ملکۂ دل دل کی دھڑکن دھڑکن کا سکوں

    اے چشم کی رونق رونق جاں جاں کا نغمہ نغمے کا فسوں

    اے نیند کی مستی مستئ مے مے کی خوشبو خوشبوئے ارم

    اے ماہ کی ضو ضو کی موجیں موجوں کی شب شب کا البم

    اے بھولی کلیوں کی ساتھی اے چنچل لہروں کی رانی

    اک بات میں تجھ سے کہتا ہوں دانائی سمجھ یا نادانی

    میں گرچہ روش سے دنیا کی بیزار سا ہوتا جاتا ہوں

    ہر گام پہ ٹھوکر کھا کھا کے تقدیر کو روتا جاتا ہوں

    میری غمگین نگاہوں میں سنسان ہیں یہ منظر سارے

    بستی وادی دریا صحرا کہسار چمن سورج تارے

    پھر بھی تو اگر اپنی زلفیں میرے شانوں پر بکھرائے

    کانٹوں سے بھری میری دنیا پھولوں کی جنت ہو جائے

    پھر تازہ جان سی آ جائے میرے مرجھائے گلشن میں

    پھر دنیا بھر کی رعنائی آ جائے سمٹ کے دامن میں

    مل جائے اگر تو قسمت سے تو ہر نعمت کو ٹھکرا دوں

    پا جاؤں جو تیری جنت کو تو اس جنت کو ٹھکرا دوں

    دنیا کی نظروں سے چھپ کر میں دور بہت آبادی سے

    یوں اکثر باتیں کرتا ہوں اپنے دل کی شہزادی سے

    لیکن رنگین تصور سے کب زلف شوق سنورتی ہے

    تدبیر کے سندر سپنوں پر تقدیر تبسم کرتی ہے

    تو عیش و طرب کی پروردہ مجھ پر بد بختی کا سایہ

    تو ہے اک دختر اہل زر میں ہوں اک شاعر بے مایہ

    میرے لئے اک ٹوٹا چھپر خود اپنی مسلسل محنت کا

    تیرے لئے اک پیلی کوٹھی آئینہ سراپا رشوت کا

    تیرا کاشانہ ہوتا ہے بجلی کے تاروں سے روشن

    اور میرے طاق میں رکھا ہے بس ایک چراغ بے روغن

    تجھ کو ہے شکایت پھولوں کے بستر پر نیند نہ آنے کی

    اور کنکریلی سڑکوں پر بھی عادت ہے مری سو جانے کی

    تیرے تو دستر خوان پہ ہے ہر اک نعمت کی ارزانی

    میں کچھ سوکھے ٹکڑے کھا کر پی لیتا ہوں تھوڑا پانی

    تو اکثر نا خوش رہتی ہے ریشم اطلس بانات میں بھی

    میں ایک پھٹے کرتے میں خوش جاڑا گرمی برسات میں بھی

    تیری تو دولت کے باعث بیگانے تجھے اپناتے ہیں

    اور میری غربت کے باعث اپنے بھی مجھے ٹھکراتے ہیں

    تیری قسمت میں سب کچھ ہے اشکوں کے سوا اے ماہ جبیں

    میری قسمت میں شاید ہے اشکوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں

    کس طرح سلامؔ میں توڑوں پھر تفریق کی ان دیواروں کو

    ذرے کیسے پا سکتے ہیں افلاک کے اونچے تاروں کو

    اے کاش کسی صورت پلہ دونوں کا برابر ہو جاتا

    یا تو ہی مفلس ہو جاتی یا میں ہی تونگر ہو جاتا

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے