Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنے نام ایک نظم

محمد انور  خالد

اپنے نام ایک نظم

محمد انور خالد

MORE BYمحمد انور خالد

    اسے دکھ کے ساتھ بیاہا گیا

    کہ جب آنکھ کھلی تو سر پر سورج جلتی ناند میں دھول

    اسے دھوپ کے ساتھ بیاہا گیا

    کہ جو شام پڑے سے دن گزرے تک سوتی تھی

    اسے نیند کے ساتھ بیاہا گیا

    کہ جو آج کے خواب سے کل کے خواب کا سودا کرتی تھی

    اسے بیاہ کے ساتھ بیاہا گیا

    کہ جو کشٹ اٹھاتی دھوپ میں بیٹھی سائے سے باتیں کرتی تھی

    اسے سائے کے ساتھ بیاہا گیا

    ملاحوں نے اس کی آنکھوں کی تعریف نہیں کی

    بچے اس کو دیکھ کے رکے نہیں

    لڑکیاں اس کے لباس پہ چونکیں نہیں

    اسے یوں دفنایا جیسے مچھلیاں جال سے جال میں ڈالتے ہیں

    اسے یوں نہلایا جیسے بارش آبی پودوں کو نہلا کر خوش ہوتی ہے

    اسے شام کے ساتھ وداع کیا

    جب چاند گھنے بادل میں چھپتا پھرتا تھا

    اور آنکھیں چننے والی مچھلیاں چنی گئی تھیں

    اور ناؤ نے ناؤ کے ساتھ گناہ کیا تھا

    مٹی پانی کے بیٹے یہ سب کچھ دیکھ چکے ہوتے تو دہشت سے پہلے مر جاتے

    یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے

    دن جو آگاہی ہے

    صبح کو بستر تہ کرنے

    دھوپ میں توشک پھیلانے

    کپڑے بستر بند سکھانے

    رات کی بتی گل کرنے

    زنجیر ہلا کر دیکھنے کی آگاہی

    یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے

    یہ دریا رات کو اندر در آئے گا

    رات عجب پچھتاوا ہے

    اپنے دوسرے کی پہچان کا

    دن کو گھر آنے

    اک نسل کا قرض اتارنے

    کانٹے چبھ کر مر جانے کا پچھتاوا

    یہ رات یہ دن کیا تابڑ توڑ گزرتے ہیں

    جب اوپر پانی چلتا ہے

    اور نیچے مٹی سوتی ہے

    اور کوئی من میں پکارتا ہے

    مولا مجھ کو بادل کر دے

    اور اک پچھلی رات اچانک چیخ کسی کو آ لیتی ہے

    اور گھر کا گھر اٹھ جاتا ہے

    اور دن کے بہلاوے میں رات بتائی جاتی ہے

    اس موسم پانی آگے آئے گا تم گھر میں مت سونا

    جب چھت کی کھچچی جھک جائے

    اور پانی چھل چھل دکھتا ہو

    تب باہر سونا اچھا رہتا ہے

    پھر موسم اپنے موسم ہو جاتے ہیں

    اور رت کنیا پازیب اتار کے پھینکتی ہے

    پھر کوئی کسی سے یہ نہیں کہتا

    مولا مجھ کو بادل کر دے

    یا سوتی مٹی

    یا چلتا پانی

    پھر کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا

    پھر سب اپنی سنتے ہیں

    پھر بادل بارش رات زمیں سب اک چادر میں سوتے ہیں

    اور اک چادر میں چلتے ہیں

    اور ہوتے ہیں اور نہیں ہوتے ہیں

    اور لفظ کا واحد سرمایہ خاموشی ہے

    اور جو لفظ نہیں سنتے ہیں خاموشی بھی نہیں سنتے ہیں

    جب پہلو دار ستون سے ٹیک لگائے لڑکی سوتی ہے

    اور حوض کے پاس کھڑے شہزادے

    اور ان کی باندیاں

    اور سارا شہر

    اس آن کہیں چپکے سے ان میں ہو جانا

    اور نہیں کہنا میں آیا ہوں

    اچھا ہے

    آگاہی اور پچھتاوے اور ایسی موت سے جو یکسر نا معلوم میں ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے