میں جب بستی کی سرحد پر کھڑا ہو کر
افق میں ڈوبتی راہوں کو تکتا تھا
تو وہ رو رو کے کہتی تھی
مجھے ڈر ہے
تجھے یہ نا ترس راہیں نہ کر ڈالیں جدا مجھ سے
میں اپنی نیم ترساں انگلیوں سے اس کے آنسو پونچھ کر کہتا تھا
اب کیسا جدا ہونا
مگر میں دل میں ڈرتا تھا
کہ ان راہوں سے واقف تھا
انہی راہوں پہ چل کر اس دیار غیر میں آیا تھا اور یہ سوچ بیٹھا تھا
کہ یہ میرے سفر کی آخری منزل ہے یہ انعام ہے میرا
مگر ہر دم افق میں ڈوبتی راہیں
سنہرے بادلوں کی روشنائی سے
ہوا میں کچھ پرانی بستیوں کے نام لکھتی تھیں
اسے اک روز میں نے کہہ دیا مجھ کو مرے اجداد کا مدفن بلاتا ہے
مری جاں مجھ کو جانا ہے
مگر تجھ بن نہ جاؤں گا
وہ اک بت کی طرح سر کو جھکائے چپ رہی لیکن
خموشی کو زباں کہتے تو سب کچھ کہہ گئی مجھ سے
جو آنسو اس کی پلکوں سے گرے تھے خشک مٹی پر
انہیں میں نے تڑپتے سوچتے اور بولتے دیکھا
پھر اک شب اس کے پہلو سے میں اٹھا اور افق میں
ڈوبتی راہوں پہ چلتا اپنے آبا
کی اس مٹی کی خوشبو کے تعاقب
میں چلا آیا جو میرے خوابوں میں
پلتی تھی
مجھے پہلو سے گم پا کر وہ سادہ بے زباں لڑکی مگر کیا سوچتی ہوگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.