اساطیری نظم
آخری بار
کوہ ندا کے اس پار
اس کے سنہری وجود کی آیت
میرے دل کے قرطاس پر
تسطیر ہوئی
میں
سات سوالوں کے جواب تلاش کرتا ہوا
اس اجنبی سر زمین پر
اترا تھا
اس کی سنہری ناف کا پیالہ
ختن سے آئی
کستوری سے لبریز تھا
اور سینے پر
لالہ کے دو پھول کھلے تھے
روشنی
اس کے چہرے کے خد و خال تخلیق کرنے میں
مصروف تھی
وہ
سیاہ پیرہن پہنے
ہیرے کے تخت کو
ٹھوکر پہ لیے بیٹھی تھی
اس
کے پہلو میں
وفادار غلام ایستادہ تھے
جن کے محبت سے لبریز دل
ان کی ہتھیلیوں پہ دھڑکتے تھے
میں نے اپنی تازہ نظم
صندل کی چھال پر لکھ کر
اسے ہدیہ کی
میری نظم کے آخری مصرع تک آتے آتے
اس کا دل
آنکھوں سے بہہ نکلا
اس نے ہاتھ بڑھا کر
رقص کرتے پیڑ کا
سب سے خوش گلو پرندہ توڑ کر
میری ہتھیلی پر رکھا
تو اس کے پہلو میں
ٹھاٹھیں مارتا جواہرات کا دریا
میرے کشادہ دامن میں بہنے لگا
میں نے اس کے دریا کو اپنے چلو میں بھرا
اور فرش پر تھوک دیا
تب اس پر یہ راز کھلا
کہ میں ہی وہ شاعر ہوں جس نے
نظم
اور
تقدیر
ایجاد کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.