اشنان
جب نور کے پردے سے ہٹا پردۂ ظلمات
جب صبح کے ماتھے سے مٹی گرد خرافات
پو پھوٹنے والی تھی تو مشرق تھا حنائی
ملنے کو تھی دنیا کو شعاعوں کی بدھائی
سہمی ہوئی اتری تو تھی آکاش سے شبنم
غنچوں کو تبسم کا وہ پیغام تھی تاہم
کلیوں کو جو بدمست ہوا چوم رہی تھی
اس چھیڑ پر ہر شاخ چمن جھوم رہی تھی
چڑیوں کی چہک دور سے دیتی تھی سنائی
اڑنے کی جسارت ابھی ان میں نہ تھی آئی
سبزہ کہیں چپ چاپ گہر رول رہا تھا
گل ہنس کے کہیں بند قبا کھول رہا تھا
فطرت کے پجاری بھی بہت جاگ چکے تھے
سیروں کے لئے لوگ بھی کچھ بھاگ چکے تھے
تقدیس کے پابند بھی گنگا کے کنارے
جاتے تھے کہیں تیز کہیں سست بے چارے
پوجا کوئی کرتا تھا تلک کوئی بناتا
جل ہاتھ میں لیتا کوئی ماتھے پہ لگاتا
اتنے میں نمایاں ہوا اک پیکر نوری
قدموں میں شفق جس کے پڑی بہر حضوری
سانچے میں ڈھلے جیسے کہ اندام تھے سارے
لپکے وہ قدم چومنے بہتے ہوئے دھارے
بوجھل تھی پلک نیند کے بے ساختہ پن سے
چھٹتی تھی کرن جیسے کہ ہر موئے بدن سے
تھالی جو اٹھائے تھی تو دل والوں کو مہمیز
محجوب ہوا دیکھ کے خورشید سحر خیز
ساری کی سنبھالے ہوئے چٹکی سے تھی چونن
بڑھتی تھی اسے دیکھ کے ہر قلب کی دھڑکن
دریا میں دھرے پاؤں بڑے ناز و ادا سے
پریاں سی لپکنے لگیں پانی کی ردا سے
رک رک کے جو دو چار قدم اور بڑھائے
چونن کو سنبھالے ہوئے تھالی کو اٹھائے
نذرانہ دیا پھول کا امواج کو اس نے
تھالی کو لیا خادمۂ خاص نے بڑھ کے
پھر آب مقدس میں جو ڈبکی سی لگائی
بدلی سی ذرا دیر کو مہتاب پہ چھائی
پانی سے پری پر کو جھٹکتی ہوئی نکلی
اندام گل اندام سے لپٹی ہوئی ساری
موتی سے برستے تھے ہر اک موئے سیہ سے
شبنم کے وہ قطرے تھے کنول پر جو پڑے تھے
وہ مست خرام آئی اسی طور گئی بھی
پر برق تپاں خرمن ہستی پر گری بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.