تغاری سر پہ دھرے تر بہ تر پسینے سے
اٹھائے مامتا کا بوجھ نو مہینے سے
دہکتی ریت پہ اپنے قدم جمائے ہوئے
مشقتوں کی نظر سے نظر ملائے ہوئے
رتوں کے قہر کو یہ امتحان لگتی ہے
یہ چاندنی سے بنی اک چٹان لگتی ہے
ہنر کی چادر با زیب اس نے پہنی ہے
معاشیات کی پازیب اس نے پہنی ہے
پھٹے لباس پہ محنت کی شال اوڑھے ہے
بدن کے شیشے پہ لوہے کا جال اوڑھے ہے
ہر اک مکان کی بنیاد اس نے ڈالی ہے
گھروں کی شوکت و عظمت اسی کی پالی ہے
وہ جس کلائی پہ بے ہمتی کے طعنے ہیں
اسی کے پنجے میں طاقت کے تانے بانے ہیں
مچان باندھ کے جب چھت بنائی جائے گی
تغاری سر پہ سیمنٹ کی یہی اٹھائے گی
چڑھے گی زینہ بہ زینہ سمیٹتی ساری
اگرچہ بوجھ بھی بھاری ہے پیر بھی بھاری
یہ جھٹپٹے کو تھکی ہاری گھر جو جائے گی
تو اپنے کنبے کی ہر بھوک یہ مٹائے گی
یہ یوں تو پیٹھ پہ پتھر اٹھا کے چلتی ہے
زمام کار کو قبضے میں کرکے چلتی ہے
کبھی کدال چلاتی ہے بوجھ ڈھوتی ہے
تو ہل چلا کے کبھی یہ زمین بوتی ہے
کبھی یہ گھر کی گواہی میں جان دیتی ہے
حویلیوں کو اطاعت کا مان دیتی ہے
غریب ہے سو بدن کا خراج دیتی ہے
یہ خود کو پیس کے گھر کو اناج دیتی ہے
یہ بے بساط ہے لیکن یہ غم گسار بھی ہے
وفا شعار بھی ہے جان روزگار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.