Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اور بھی غم ہیں زمانے میں

علی مینائی

اور بھی غم ہیں زمانے میں

علی مینائی

MORE BYعلی مینائی

    اے مری جاں مجھے اس درجہ شکایت سے نہ دیکھ

    آج تک میں نے ترے حسن کی باتیں کی ہیں

    دن گزارے ہیں ترے غم کے سہارے اکثر

    تیری یادوں سے چراغاں کئی راتیں کی ہیں

    تیری خوشبو سے مہکتی ہیں فضائیں دل کی

    خامشی ہے تری آواز کا آہنگ لئے

    جو حسیں شے ہے مری آنکھ کے آئینے میں

    تیری شوخی تری رعنائی ترا رنگ لئے

    میرے ہر شعر میں آہٹ ہے ترے قدموں کی

    میرے ہر نقش میں پنہاں ہے ترا عکس شباب

    آج لیکن مری جاں حال دل زار نہ پوچھ

    آج کی رات مری آنکھ میں کچھ اور ہیں خواب

    تجھ کو معلوم ہے کس طرح تری الفت میں

    میں نے ہر درد ہر اک رنج بھلا رکھا تھا

    اک طرف ہٹ کے شب و روز کے ہنگاموں سے

    تیرے جلووں کا پری خانہ سجا رکھا تھا

    بھول کر غم کدۂ زیست کی تاریکی کو

    نور امید سے شاموں کو جلا رکھا تھا

    کہیں دامن میں لئے پھرتا تھا خورشید کو ساتھ

    آستیں میں کہیں مہتاب چھپا رکھا تھا

    لیکن اے جان وفا جان طرب جان امید

    دل پہ اک درد پر آشوب کی یلغار ہے آج

    خرمن حرف و نوا کو ہے بچانا مشکل

    بے اماں شعلۂ بیتابئ اظہار ہے آج

    ہر اندھیرے کو تمنا ہے سلگ اٹھنے کی

    ہر خموشی کو صدا بننے پہ اصرار ہے آج

    ہر نفس میں ہے مرے دھار کسی خنجر کی

    ہر قدم میں مرے زنجیر کی جھنکار ہے آج

    آج اک اور ہی عالم ہے مری نظروں میں

    جس کا ہر ذرہ ہے واماندگیٔ غم سے نڈھال

    جس کے تاریک خرابوں میں ہیں برباد وہ لوگ

    جن کو الفت کا ہے یارا نہ مسرت کی مجال

    جن کی آنکھوں میں فقط ظلمت فردا کے ہیں خواب

    جن کے چہروں پہ فقط سایۂ اندوہ و ملال

    آج کی شب کوئی افسانۂ دل کش مت چھیڑ

    میری آنکھوں کو یوں ہی اشک فشاں رہنے دے

    میرے سپنے میں دہکنے دے یہی غم کا الاؤ

    میرے چہرے پہ اداسی کا دھواں رہنے دے

    کل وہی نغمہ جگا لوں گا لبوں پر اپنے

    آج کی رات مجھے محو فغاں رہنے دے

    تجھ کو معلوم ہے کچھ اے مری خوشیوں کی رفیق

    غم دوراں مری تنہائی سے کیا کہتا ہے

    جن حسیں لمحوں سے ہم بنتے ہیں خوشیاں اپنی

    ان میں کتنوں کی تمناؤں کا خوں بہتا ہے

    لاکھ بہلاؤں میں دل کو تری الفت سے مگر

    سایہ اک میرے تبسم میں بسا رہتا ہے

    آج کی رات اسی سایۂ بے نام کے نام

    آج کی رات فقط نالۂ ماتم ہی سہی

    گل پژمردہ پہ چپ-چاپ لٹانے کے لئے

    کیسۂ چشم میں سرمایۂ شبنم ہی سہی

    اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

    آج کی شب مجھے کرنے دے ذرا ان کا حساب

    اے مری جاں مجھے اس درجہ شکایت سے نہ دیکھ

    آج کی رات مری آنکھ میں کچھ اور ہیں خواب

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے