اور پانی ٹھہر گیا
اور پانی ٹھہر گیا آنکھوں میں چہرہ سیاہ ہوا
اور آنکھیں پھیل گئیں
اور آنکھیں پھیل گئیں آنکھوں میں ہونا گناہ ہوا
اس دن سارے لکھنے والے گھر آئے اور لوٹ گئے
اور سب کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور سب کا چہرہ پھیل گیا
ماہی گیروں نے اس دن بے اندازہ جال بنے
اور بچے بھوکے ہی سوئے
اور مائیں بستر بان کسے چپ لیٹ گئیں
اور جب ماہی گیروں کی بستی میں رات آئی
سب جال سمیٹے گھر آئے اور لوٹ گئے
اور سب کی آنکھیں ٹھہر گئیں اور سب کا چہرہ پھیل گیا
یہ رات سمندر پار سے ہو کر آئی تھی
سو بیچ سمندر ٹھہر گئی
اس رات کی جس نے بات لکھی وہ گھر نہ گیا
وہ بیچ سمندر ٹھہر گیا
وہ مٹی کی زنجیروں سے آزاد ہوا
سو آنے والا کل جو نہیں ہے اس کا ہے
جب برف سروں پر آئے گی تم جاگو گے
اور پچھلے اونی موزے کام نہ دیں گے
اور شالیں سرسر کھلتی جائیں گی
اور بیویاں ڈر کر اٹھیں گی
اے پچھلی رت کے چلنے والے لوٹ چلو
مردے مردوں کو خود دفن کریں گے
جب بچے شاخوں پر پلتے ہوں بارش کا کیا خوف
ہاں بارش ساگر کا پہلا ہرکارہ ہے
اور کیلوں کی یہ جوڑی لڑکے کل تک ساتھ نہ دے گی
وہ آنکھیں میچے ہنستی ہے اور سوتی ہے
لڑکے جلدی گھر آ جانا
پانی ٹھہر گیا ہے
اور لڑکا گھر نہ گیا
وہ لڑکا گھر نہ گیا
اور دیکھنے والوں نے دیکھا
وہ برف کے تودے کھینچتا تھا اور روتا تھا
اور گھر پانی کے بیچ جھکولے کھاتا تھا
پانی جو ٹھہر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.