عوامی صبح
عوامی صبح پھر آئی
زمیں نے کر لیا رخ اپنا
پھر سورج کے اس نقطے کی جانب
جہاں یاران ہم مجلس نے امیدوں کی کرنوں کا
سہانا روپ دیکھا تھا
کئی صدیوں کی ظلمت کی تہوں سے
کنواری دھوپ کا گھونگھٹ اٹھایا تھا
قفس کی کھپچیوں پر لیٹ کر آزاد آنکھوں سے
کئی سپنے بنے تھے
جہاں سے اک نئے احساس کا ہالا ملا تھا
نئی سوچوں کا دروازہ کھلا تھا
وہی ہم تھے
کہ اپنے حاکموں کے واسطے مرتے چلے تھے
وہی ہم تھے
کہ جن پر زندگی کرنے کا عقدہ کھل چکا تھا
عوامی صبح پھر آئی
برابر آ رہی ہے
زمیں ہر سال اس دن کا
اعادہ کر رہی ہے
مگر سورج کا وہ نقطہ
جو اس دن کا محرک تھا
نہ جانے کیوں
مجھے کچھ اجنبی سا لگ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.