عذاب
مجھے شک کی نظروں سے کیوں دیکھتے ہو
مری بات سچ ہے
مری بات سچ ہے میں کل رات ناگوں سے لڑتا رہا ہوں
کنہیا نہیں میں جو ناگوں کو نتھ لوں
میں ایسا بڑا کوئی انسان کب ہوں
جو حرف شکایت بھی لب پر نہ لائے
نہ جو یہ کہے
میں تو بس باز آیا
وہ گوریلا فوجیں ہیں یا ناگ کالے
نکلتے ہی دن کے وہ جاتے کہاں ہیں
یہ کس کو خبر دن میں رہتے کہاں ہیں
لپٹتے ہیں راتوں کو اس طرح مجھ سے
امربیل پیڑوں کی شاخوں سے جیسے
وہ رہ رہ کے شاخوں سے جیسے
وہ رہ رہ کے پھنکارنا ان کا توبہ
کہ خود کار بندوق کی گولیاں ہوں
میں ان سے نکل بھاگنا چاہتا ہوں
مرا جسم زنداں ہے بے بس ہوں اس میں
کوئی دیو قد بیڑیوں میں ہو جیسے
مری بات سچ ہے
مری بات سچ ہے نہیں ہے کسی جنگ کا یہ فسانہ
حقیقت ہے یہ اس کو دھوکا نہ سمجھو
ہوا پچھلی راتوں میں کیا کچھ نہ پوچھو
نگلتا ہے جب بھی اندھیرے کا اجگر
مکینوں مکانوں کو دیوار و در کو
نگلتا ہے عفریت جب خامشی کا
صداؤں کا جنگل نواؤں کی نگری
وہ ایسے میں آتے ہیں جانے کہاں سے
اچانک میں گھبرا کے اٹھ بیٹھتا ہوں
کساں خواب میں دیکھ کر آگ جیسے
سر کشت گھبرا کے اٹھ بیٹھتا ہے
جو ہیں سلوٹیں میرے بستر میں صدہا
وہ سانپوں کے انداز میں رینگتی ہیں
مری سیج سانپوں کا مسکن بنی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.