بابا گرو نانک دیو
ایک جسم ناتواں اتنی دباؤں کا ہجوم
اک چراغ صبح اور اتنی ہواؤں کا ہجوم
منزلیں گم اور اتنے رہنماؤں کا ہجوم
اعتقاد خام اور اتنے خداؤں کا ہجوم
کشمکش میں اپنے ہی معبد سے کتراتا ہوا
آدمی پھرتا تھا در در ٹھوکریں کھاتا ہوا
حق کو ہوتی تھی ہر اک میداں میں باطل سے شکست
سرنگوں سر در گریباں سربسر تھے زیردست
فن تھا اک مطلب براری لوگ تھے مطلب پرست
اسقدر بگڑا ہوا تھا زندگی کا بندوبست
حامی جور و ستم ہر طرح مالا مال تھا
جس کی لاٹھی تھی اسی کی بھینس تھی یہ حال تھا
کیا خدا کا خوف کیسا جذبۂ حب وطن
برسر پیکار تھے آپس میں شیخ و برہمن
باغباں جو تھے وہ خود تھے محو تخریب چمن
الغرض بگڑی ہوئی تھی انجمن کی انجمن
مذہب انسانیت کا پاسباں کوئی نہ تھا
کارواں لاکھوں تھے میر کارواں کوئی نہ تھا
روح انساں نے خدا کے سامنے فریاد کی
جو زمیں پر ہو رہا تھا سب بیاں روداد کی
اور کہا حد ہو چکی ہے کفر کی الحاد کی
ایک دنیا منتظر ہے آپ کے ارشاد کی
تب یہ فرمایا خدا نے سب کو سمجھاؤں گا میں
آدمی کا روپ دھارن کر کے خود آؤں گا میں
اس طرح آخر ہوا دنیا میں نانک کا ظہور
فرش تلونڈی پہ اترا عرش سے رب غفور
اٹھ گیا ظلمات کا ڈیرا بڑھا ہر سمت نور
منبع انوار سے پھیلیں شعاعیں دور دور
مہر تاباں نے دو عالم میں اجالا کر دیا
آدمی نے آدمی کا بول بالا کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.