بابل جیسا اک سایہ
ماں
تیرے آنچل کے سارے پھول چنے میں نے
ماں تیرے کنگن کے سارے گیت سنے میں نے
ماں اپنی پلکوں پر تیرے خواب بنے میں نے
بھیگی بھیگی پروائی
یا نرم نرم ریشم سی دلائی
یا ماتھے پر جگ مگ بوندیں
ململ اوڑھنے والی گھڑیاں
ماں
ہر رت میں
تیری سانسوں کی وہ مدھر مہکار مری رگ رگ میں اتری
ماں تیری وہ بلبل سی چہکار مری رگ رگ میں اتری
نیلے پیلے شعلوں پر پکتی اک ہانڈی
گرم توے پر ڈلی ہوئی مسی کی روٹی
مٹی کی کلھیا میں ہرے دھنیے کی چٹنی
اصلی گھی میں بگھری ماش کی دال کی خوشبو
بھرے ہوئے آلو کے پراٹھے
مرچوں والے دہی پکوڑے
باورچی خانے میں سجی برتن کی قطاریں
رسی پر پھیلائے ہوئے کچھ اجلے کپڑے
ماں
تیرے ہاتھوں کے سارے
ہنر مرے ہاتھوں میں اترے
تیرا سلیقہ
تیرا سگھڑ پن
تیری وہ پھولوں سی ہنسی اور ممتا کا مدھ ماتا سایہ
ماں
میں نے تو
جب سے ہوش سنبھالا تجھے خود اپنے اندر پایا
تجھے ہی اپنے اندر لے کر
آنکھوں میں کچھ خواب سجائے
اک دن میں اس انجانی دہلیز پہ اتری
آنگن میں پھر
جھانجھر والا پاؤں دھرا نتھ پہنی درپن دیکھا
اور خوش ہو ہو کر یہ سوچا
میں تو تجھے اپنے اندر لے کر آئی ہوں
لیکن یہ معلوم نہیں تھا
میں نے اس آنگن میں ابھی جس کو دیکھا تھا
میں نے اس کمرے میں ابھی جس کو پایا تھا
تو وہ نہیں تھی
تیرے سوا ماں ساتھ مرے کوئی اور آیا تھا
ہاں ماں وہ تو بابل جیسا اک سایہ تھا
جس کے گھر آتے ہی اکثر
تو سوچوں میں کھو جاتی تھی
کچھ گم صم سی ہو جاتی تھی
یا بستر میں سو جاتی تھی
ماں تیری وہ سوچ تو اب میرا حصہ ہے
ہم دونوں کا ایک ہی جیسا تو قصہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.