بادۂ نیم رس
کس قیامت کا تبسم ہے ترے ہونٹوں پر
استعاروں میں بھٹکتے ہیں خیالات مرے
میں کہ ہر سانس کو اک شعر بنا سکتا ہوں
نظم ہونے کو پریشان ہیں جذبات مرے
آنکھ جمتی نہیں لہراتے ہوئے قدموں پر
کسی نغمے کا تلاطم ہے کہ رفتار تری
رقص انگڑائیاں لیتا ہے تری بانہوں میں
حیرت آثار ہے کیوں چشم فسوں بار تری
بے خیالی میں نشیبوں سے گزرنے والی
فرش ہموار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
لب تھرک جائیں گے الفاظ کی موسیقی پر
اپنی رفتار سے الجھیں گے قدم رہ رہ کر
دیکھتے دیکھتے بھرپور جوانی کی حیا
تیری بے باک نگاہوں میں سما جائے گی
پردۂ چشم سے نکلیں گی جھجک کر نظریں
زلف ڈرتی ہوئی رخسار پہ لہرائے گی
جسم ہر گام پہ لغزش کا اشارہ پا کر
جام لبریز کی مانند چھلک جائے گا
ریشمیں ریشمیں زلفوں سے پھسلتا آنچل
کبھی شانوں سے کبھی سر سے ڈھلک جائے گا
تیرے چہرے پہ ترے جسم کے ہر گوشے پر
ابھی اک اور جلا اور تراش آئے گی
اپنے اعضا کے تناسب پہ تعجب ہوگا
پیش آئینہ گزرتی ہوئی شرمائے گی
یوں تری چال میں آئے گا جوانی کا وقار
جیسے مرطوب فضاؤں میں گھٹا جھومتی ہے
جس طرح شام کو صندل کے گھنے جنگل میں
اپنی خوشبو سے گراں بار ہوا جھومتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.