بادل
بسکہ دنیا پہ مصیبت کی گھٹا چھائی تھی
اہل عالم کی غرض جان پہ بن آئی تھی
دل میں بادل کے خدا جانے کہ کیا آئی تھی
بوند پانی کی نہ کمبخت نے برسائی تھی
یوں تو بادل کئی گھر گھر کے چلے آتے تھے
وعدے کرتے تھے مگر وعدوں سے پھر جاتے تھے
بسکہ مجبور تھے وہ عادت خود غرضی سے
طور ان کے جو برسنے کے تھے سب فرضی تھے
شور کو اپنے جو وہ صرف ہوا کرتے تھے
بحر افلاک میں طوفان بپا کرتے تھے
میں نے یہ کہہ ہی دیا آپ کے سب حیلے ہیں
گرجنے والے مرے دوستو کب برسے ہیں
بادل اللہ نے بنائے تھے برس جانے کو
کسی دہقان کی قسمت پہ ترس کھانے کو
دل انہیں میں نے برسنے سے چراتے دیکھا
ایک آنسو نہ نگاہوں سے بہاتے دیکھا
بھول جاتے ہیں جو سچ پوچھو تو زر والے بھی
کہ مکانوں کے ہوا کرتے ہیں پرنالے بھی
دیکھتے دیکھتے بادل سبھی برباد ہوئے
حوصلے والے وہیں آن کے آباد ہوئے
اشک دہقاں کی مصیبت پہ بہانے آئے
منہ میں کھیتی کے وہیں پانی چرانے آئے
ساغر دل میں مئے درد بھری رکھتے تھے
اور رحمت کی لگائے وہ جھڑی رکھتے تھے
پھر تو ویرانوں کو گلزار بنا کر چھوڑا
بیڑا دنیا کا غرض پار کرا کر چھوڑا
ابر باراں نے جو یوں اپنی دکھائی ہمت
شامل حال ہوئی ہے کے خدا کی رحمت
اپنی رحمت میں خدا نے انہیں آباد کیا
اپنے سینے سے لگا کر انہیں دل شاد کیا
زندہ رہتے ہیں پوریؔ مرد سخاوت والے
یاد رہ جاتے ہیں دنیا میں مروت والے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.