چلو اتنا تو ہو پایا
کہ تم نے بادلوں کے چند ٹکڑوں کو ہمارے پاس بھیجا ہے
ہماری پیاس کی خاطر ذرا سی آس بھیجی ہے
چٹختے اور پیاسے نیلے ہونٹوں کو تصور میں
خیالوں میں کسی بے وصل اور بے موسمی غم کی نمی کا نرم گیلا اور گلابی سا کوئی احساس تو ہوگا
جسے میں نے دعا کی شاخ سے باندھا ہوا ہے اب
بدن میں کچھ تری اترے سسکتے اور تپتے دشت میں اڑتی تڑپتی سر پٹکتی ریت کا احساس مٹ جائے
سو ایسا ہو گیا اب
پہاڑوں کی سی سنگلاخی خموشی اور مایوسی خراشوں کی اذیت مٹ چکی ہے
ترے بھیجے ہوئے بادل کو چھونے سے
چلو اتنا تو ہو پایا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.