خدا
تو نے مجھے گھوڑا بنایا تو
مگر بارات کا
جس کے آگے ناچتے رہتے ہیں لوگ
نوٹ دانتوں میں دبائے
کیا نظر میں ہیں تری وہ ظلم
جو مجھ پر ہوئے ہیں اس کرم کی آڑ میں
ریس کے میدان کے بدلے
کسی منڈپ تلک کا یہ سفر
کتنا تھکا دیتا ہے مجھ کو
کیا تجھے معلوم ہے
کیا تجھے معلوم ہے دولہے کا بوجھ
اس کو بیٹھانے کی ذمہ داریاں
اور اس پر اس قدر حساس دل
جو سمجھ سکتا ہے اس دن کے معانی کیا ہیں دولہے کے لیے
کوئی کیسا بھی پٹاخہ چھوڑ دے پیروں میں میرے
شور سے باجے کے میرے کان بھی پھٹ جائیں تو کیا
چال میں اپنی ذرا سا فرق میں آنے نہ دوں گا
پیٹھ پر بیٹھے ہوئے دولہے کی عزت میری عزت
ہاں مگر یہ بھی خیال آتا ہے اکثر
میں تو ہر ذلت اٹھا کر
اپنی ذمہ داریاں پوری کروں گا اور کرتا آ رہا ہوں
تو مگر کب اس طرح سوچے گا اس مخلوق کے بارے میں
جو تیری اماں میں ہے
- کتاب : کھڑکی تو میں نے کھول ہی لی (Pg. 156)
- Author :شارق کیفی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.