اس قدر شوخ نگاہوں سے نہ دیکھو مجھ کو
غیرت حسن پہ الزام نہ آ جائے کہیں
تم نے خود بھی نہیں سمجھا ہے ابھی تک جس کو
لب پہ وہ خواہش بے نام نہ آ جائے کہیں
یہ جو معصوم تمنا ہے تمہارے دل میں
کتنی سنگین خطا ہے یہ تمہیں کیا معلوم
اور دنیا میں محبت کے خطا کاروں پر
کس قدر ظلم ہوا ہے یہ تمہیں کیا معلوم
اپنی بوسیدہ روایات کے ویرانوں میں
تشنہ روحوں کو بھٹکتے نہیں دیکھا تم نے
اپنی تہذیب کے تاریک ستم خانوں میں
آرزوؤں کو سسکتے نہیں دیکھا تم نے
کتنی لاشیں ہیں پس مدفن ناموس یہاں
اپنے اجداد کی تاریخ اٹھا کر دیکھو
زینت خانہ جو بے روح سی تصویریں ہیں
چیخ اٹھیں گی ذرا ہاتھ لگا کر دیکھو
اپنی دنیا تو تجارت کی وہ منڈی ہے جہاں
جسم کی بات ہی کیا روح بھی بک جاتی ہے
دام لگ جائیں تو کیا عشوہ و انداز و ادا
پیار سی شے سر بازار چلی آتی ہے
تم کو بھی ایک نہ اک دن یوں ہی بکنا ہوگا
اپنے ناموس کی دیرینہ روایت کے لئے
کوئی تاجر تمہیں بازار سے لے جائے گا
اپنی بانہوں میں گھڑی بھر کی حرارت کے لئے
لوٹ جاؤ کہ یہاں پیار کا حاصل کیا ہے
نالۂ شب کے سوا آہ سحر دم کے سوا
اور کیا دے گا زمانہ تمہیں انعام وفا
آتش غم کے سوا دیدٔہ پر نم کے سوا
- کتاب : Naqd-e-jan (Pg. 62)
- Author : Shahid Akhtar
- مطبع : madhya pradesh urdu academy Bhopal (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.