بازیافت
کسی کابوس کا گویا گزیدہ
شکستہ خواب بے تعبیر کو آنکھوں سے دھو کر
غریبی ڈھونڈھنے نکلا سویرے
تو حیرانی کو دامن گیر پایا
گزر گاہوں میں لشکر بے اماں تھے
چہکتے چہچہاتے نونہالاں
جھکے جاتے تھے پشتاروں کے مارے
انہیں کچھ بھی نہیں معلوم محشر
کمیں گاہوں میں ان کا منتظر ہے
خدایا آگہی آخر کدھر ہے
تو میں گرد کدورت منہ پہ مل کے
غریبی ڈھونڈھنے نکلا تھا گھر سے
سیہ کاروں کی کاروں کے طویلے
مرے رستے کو ہر جانب سے روکے
صلیب دود پر مجھ کو چڑھائے
چلے جاتے تھے نادیدہ جہاں میں
جہاں دنیائے غم نا آشنایاں
سجیلے خوش نگار و سیم تن ہیں
سر راہے پھٹے لتوں کے خیمے
وہیں اطراف میں بچوں کے ریوڑ
وہیں میلی کچیلی عورتیں بھی
سر بازار مردوں کے برابر
مساوات تمدن کا نمونہ
انہیں کچھ بھی نہیں معلوم
غربت کیا بلا ہے
کہ زیر آسماں جو کچھ ہے
سب ان کا جہاں ہے
بالآخر تھک تھکا کر گھر کو لوٹا
ٹھٹھک کر اپنی چوکھٹ پر جو ٹھہرا
تو اس کے پار اک ویراں سی دنیا
اجالے میں فریب شب کے ڈوبی
غریبی کو کلیجے سے لگائے
مری آمد کی جیسے منتظر تھی
وہیں گلشن دعا کے نا فریدہ
وہیں پژمردہ امیدوں کی کلیاں
وہیں دانشوری سر در گریباں
گریباں چاک اپنا سی رہی تھی
وہیں فکر رسا بھی رو رہی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.