میرے چہرے پہ تھوکو
تمہیں حق ہے میرے چہرے پہ تھوکو
کہ اس چہرے پہ رعنائی
نہ ایسی آنکھیں
جن کو دیکھ کر آہوئے وحشی کا گماں ہو
ستاروں کی چمک ان میں
نہ خوابوں کی وہ سرمستی
جو کہتے ہیں
خدا نے مشترک بانٹے ہیں انساں میں
دہکتے سیب ہیں یہ گال
نہ جاں میں توانائی
کہ جس کو دیکھ کر صدیوں پرانے دیوتاؤں کی
عظمت کا خیال آئے
دھنسی آنکھیں ہیں
جن میں ان گنت صدیوں کی اک آسودہ حالی
اور مسرت کا
فقط اک انتظار روح فرسا رقص کرتا ہے
سیاہ رنگت
کہ جس کی ہر سطر پر
ہر بن مو پر لکھا ہے
آدمیت کے ستم کی داستاں
اس کی شرافت اور نجابت کی کہانی
تمدن کی نشانی
یہ پچکی ہڈیاں گالوں کی
جس کا خون
گورے دیوتاؤں کا وہ غازہ ہے
کہ جس کی سرخ رنگت سے
جلال ان کا ہے تابندہ
خمار بے کراں زندہ
کہ پوری آدمیت جس کے دم سے
ان کے آگے سرنگوں ہے
سراسیمہ پریشاں گو مگو ہے
سیاہ رنگت
یہ پچکی ہڈیاں
اور یہ دھنسی آنکھیں
معیار حسن دنیا کا
مقرر جو بھی ہے اس کے مطابق
کوئی بھی تو شے نہیں ہے
یہ فقط بد صورتی ہے
تھوک دو اس پر
مگر یہ جان لو
اس رنگ پر اس کالے چہرے پر
کہیں انسانیت کے خون کا دھبہ نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.