بغداد
حسن جس شہر میں
تو گیلی مٹی سے
کبھی کوزے بناتا تھا
تجھے اس شہر میں مٹی نہیں
اب سر ملیں گے
ہزاروں خستہ تن
لاشوں سے رستا خون
تیرے شہر کی مٹی کو
یوں سیراب کرتا ہے
کہ اب جو تو کبھی
مٹی سے کھیلے گا
تو ہر کوزہ صراحی جام و مینا
لہو کے رنگ کے ہوں گے
تری نقش و نگاری
اور ترے ہاتھوں کی صناعی
نہ ان کوزوں کو بخشے گی وہ حیرت
وہ ندرت اور وہ نقاشی
جو بس تیرا ہی حصہ تھی
وہ اس مٹی کی سوندھی تیز خوشبو
پرانے خون کی بدبو میں مل کر
ایسی بدلی ہے
تجھے محسوس ہوگا
تو کسی مرگھٹ میں بیٹھا ہے
تجھے دجلہ کا وہ شفاف پانی یاد ہے کیا
وہ جس سے تیرے کوزوں کی ضیا تھی
وہ جس سے پیاس بجھتی تھی
ترے سوکھے بدن کی
وہ دجلہ سرخ ہے
معصوم بچوں کے لہو سے
حسن عطا یوسف کی دکاں کے سامنے
کل بم پھٹا تھا
نہ جانے کتنے کوزہ گر مرے
جن کے گھروں میں
اسی مٹی کے پیالے ہیں مگر خالی
تڑپتی بھوک ہے اور لب سوالی
نہ جانے کتنے کاری گر مرے
اب کون گنتا ہے
حسن اس شہر میں اب کوئی مرجینہ نہیں ہے
نہ دنیا زاد، نہ حاسب کریم الدین کا گھر ہے
عجائب گھر ہیں نہ وہ درس گاہیں
کتب خانوں میں لشکر سو رہے ہیں
کوئی زندہ نہیں اس شہر میں
بس موت زندہ ہے
حسن تو مجھ سے وعدہ کر
کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے
پلٹ کر اس شہر میں
پھر کبھی واپس نہ آئے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.