بگولا
بگولا کیا ہے
جو خاک در خاک شہر در شہر شخص در شخص
عکس در عکس آئنہ در آئنہ چل رہا ہے
بہار دیدہ خزاں رسیدہ یہ پیڑ پودے بکھر چکے ہیں
جو میرے ہم راہ چل رہے تھے نہ جانے اب وہ کدھر گئے ہیں
ہماری قوس قزح کے سب رنگ اتر چکے ہیں
بگولا آ کے گزر گیا ہے
گلاب تا دیر کھل چکے ہیں
مری کہانی کے اہم کردار ہزار شکلیں بدل چکے ہیں
نہ جانے اب وہ کہاں ملے گا
میں بند آنکھوں پہ اپنے ماضی کی دھندلی عینک لگا کے دیکھتا ہوں
شکستہ پا کی مسافتوں کا یہ سترہ سالہ طویل موسم گزر گیا ہے
سمٹ گیا ہے مرے جنم دن کے کیک پر
جلتی بجھتی شمع کی اوٹ میں
ہائے سترہ سالہ طویل موسم
بگولا مجھ میں سمٹ رہا ہے
میں اپنی آنکھوں کو مل رہا ہوں
خود اپنے اندر ہی گھل رہا ہوں
سمجھ نہیں آ رہا ہے مجھ کو کہ
زندگی میں
یہ بارہ پتھر
گرا رہا ہوں
کہ چن رہا ہوں
میں سترہ سالوں سے
تین تنکوں پہ
چل رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.