تیری طلب میں میری ہونٹوں کی خشک سالی نے
کتنے موسموں کے ستم فقط اس لیے سہے تاکہ تجھے خبر ہو تیری طلب میں
کن قربانیوں سے گزر کر آنا ہے
اے بہار بخت تجھے غیر مستقل چاہنے والا خواب و خواہش کی وادیوں میں
یہ بھول بیٹھا ہے
تیرے چہرے کا آتش فشاں
تیرے سرخ و سفید سینے کی گرماہٹ سے بے قابو ہوا پھرتا ہے
تجھے کن فلسفوں کی عادت تھی
تو کن بے وقوفوں میں پھنس گئی ہے
تو وہ شہکار ذہن تھی جو گلاب اور خوشبو کے درمیان سے میٹافر الگ دیتی تھی
آج تجھ سے کپڑوں کی الماری سیٹ نہیں ہوتی
تیری جگہ تو عظیم مصر کی پہلی مشہور دیوی کے برابر تھی
تیری محبت میں غرق سورج کا دیوتا
کتنی بار اپنے مدار سے نکل کر
اہرام مصر پر اتر آیا تھا
اور تیری چاہت میں ٹوٹے تارے کی دھات سے تیرے کنگن بنوا لاتا تھا
آج تو اپنی کلائیوں میں کانچ کی چوڑیاں پہن کر
اپنے رتبے کا مذاق بنا رہی ہے
تو کس شان کی اولاد تھی تو کہاں کی رہنے والی
تیرے لیے تو زندگی رس بھرے انگوروں کا ذخیرہ تھی
یہ کس عذاب میں گھونٹ گھونٹ مر رہی ہے
تو ایک بےوقوف کے
بچے پیدا کر رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.