تیری طلب میں میری ہونٹوں کی خشک سالی نے
کتنے موسموں کے ستم فقط اس لیے سہے تاکہ تجھے خبر ہو تیری طلب میں
کن قربانیوں سے گزر کر آنا ہے
اے بخت بہار تجھے غیر مستقل چاہنے والا خواب و خواہش کی وادیوں میں
یہ بھولا ہوا ہے
تیرے چہرے کا آتش فشاں
تیرے سرخ و سفید سینے کی گرماہٹ سے بے قابو ہوا پھرتا ہے
تجھے کن فلسفوں کی عادت تھی
تو کن بے وقوفوں میں پھنس گئی ہے
تو وہ شہکار ذہن تھی جو گلاب اور خوشبو کے درمیان سے میٹافر الگ کر دیتی تھی
آج تجھ سے کپڑوں کی الماری سیٹ نہیں ہوتی
اے بخت عالم اشیا مجھے یاد ہے میں نے جب ہوش کا شہد چکھا تھا
تیرا ذکر عظیم ہستیوں میں مقدس بستیوں میں متروک صحیفوں میں اور پیغمبروں کے پاک
دریچوں میں ہوتا تھا
تیری محبت میں غرق تیرے اہرام پر اترتے ہوئے کئی دین داروں کی دینیات میں بل آئے جاتے تھے
اور تیری چاہت میں اونچے گنبدوں سے نکلتی نیلی روشنی کے پیروکار کے حکم پر
ٹوٹے تاروں کی دھات سے تیرے کنگن بنوائے جاتے تھے
مجھے یاد ہے وہ دن تیری خدائی کے دن تھے
آج تو اپنی کلائیوں میں کانچ کی چوڑیاں پہن کر
اپنے رتبے کا مذاق بنا رہی ہے
تو کس شان کی اولاد تھی تو کہاں کی رہنے والی
تیرے لیے تو زندگی رس بھرے انگوروں پہ چہل قدمی تھی
یہ کس عذاب میں گھونٹ گھونٹ مر رہی ہے
تو ایک بےوقوف کے
بچے پیدا کر رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.