بھٹکتی ہوئی وقت کی آتمائیں
ترے گھاٹ کے پتھروں کی زباں سے
یگوں کی صداؤں کی صورت ابھر کر
گھلی جا رہی ہے بجھے پانیوں میں
تری سانس کی شاہراہوں پر پھوٹی
وہی تنگ گلیاں، وہ گلیوں میں گلیاں!
کہ جیسے رگوں کا بنے جال کوئی
جہاں لاکھ بھٹکو، نہ کوئی سفر ہو
سفر فاصلہ ہے، سفر مرحلہ ہے
یہیں پر حیات اور یہیں پر فنا ہے
اسی مرحلے سے ،اسی فاصلے سے
اک امکان بن کر جو بہتا ہے پانی
سبھی اپنی اپنی قدامت کے آثار
دھیرے سے اس میں بہانے لگے ہیں
سبھی اپنی فلک بوس تنہائی
ترے افق پر سجانے لگے ہیں
کوئی راگ خاموش گانے لگے ہیں
مقدس بیابان، جسموں کے مرکز!
تری روح کے بے کراں ،سرد کونے میں
صدیاں غلاظت کیے جا رہی ہیں
بنارس تری سب مجرد ادائیں
حسیں موت پا کر جیے جا رہی ہے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.