بنجر خیالی کے دن
روح بے چین ہے
چشم پر آب سے بارشوں کی توقع بھی بیکار ہے
لفظ گر ساعتیں شاعری کے ترنم سے سرشار
تو ہیں مگر
نظم کے سات سر
میری کہنہ سماعت سے ٹکرا کے
واپس کہیں جا چکے ہیں
مری ذات خاموشیوں کے سفر پر روانہ ہے
اور میں پرانے گھروں کے جھروکوں سے
تعبیر کے سلسلے جوڑتی پھر رہی ہوں
سبھی کوششیں مستقل بے نتیجہ
نقاہت بھری زندگی سے مرصع
شفاعت کی طالب بغاوت کی رسیا
میرے زائچے
میں لکھی جا چکی ہیں
الف لام را کے سخنور مجھے
کوئی رستہ دکھا
تا کہ میں بھی پر اسرار وقتوں کی کنڈلی
نکالوں سرکتے پگھلتے ہوئے بر اعظم کے نقشے پڑھوں
نیلگوں آسمانوں میں بکھرے ہوئے بادلوں کو نگلتے ہوئے مشتری کے کسی چاند پر آفتابی صفت زائچہ لکھ سکوں
رات کے بعد دن تو یقینی ہے پر آنکھ کا کیا بھروسہ کھلے نہ کھلے وقت کی ڈور سے بندھ کے چلتا ہوا ایک سایہ
یہ جیون ملے نہ ملے اور دھرتی پہ خوابوں کا سبزہ اگے نہ اگے
اے میرے راز داں میری چادر کہ جس سے ہے لپٹی ہوئی یہ خزاں
میرے ہاتھوں کی مہندی میں ڈوبی ہوئی یہ لکیر نہاں جس میں اگلی صدی کی ہیں رعنائیاں کھو نا جائیں کہیں
میرے حصے میں لکھی ہوئی آگہی سو نا جائے کہیں
آدم اولیں کی طرح مجھ کو اسما سکھا کوئی رستہ دکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.