کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر تنہا کھڑی میں سوچتی ہوں
نہیں کوئی نہیں ہے
نہیں کوئی نہیں ہے جو مرے اندر بلکتی خامشی کو تھپکیاں دے کر سلا ڈالے
محبت اوک میں بھر کر پلا ڈالے
یہ کیسی بے نیازی ہے
کہ جلتی ایڑیوں کی سسکیاں سن کر بھی بادل چپ رہا ہے
یہ کیسے رت جگے آنکھوں میں اترے ہیں
کہ جن کے سلسلے قرنوں پہ پھیلے ہیں
مگر میں ہجر کے موسم لئے
کب سے
کسی بنجر زمیں کے خواب کا تاوان بھرتی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.