برف کے شہر کی ویران گذر گاہوں پر
برف کے شہر کی ویران گزر گاہوں پر
میرے ہی نقش قدم میرے سپاہی ہیں
مرا حوصلہ ہیں
زندگیاں
اپنے گناہوں کی پنہ گاہوں میں ہیں
رقص کناں
روشنیاں
بند دروازوں کی درزوں سے ٹپکتی ہوئی
قطرہ قطرہ
شب کی دہلیز پہ گرتی ہیں کبھی
کوئی مدہوش سی لے
جامہ مے اوڑھ کے آتی ہے گزر جاتی ہے
رات کچھ اور بپھر جاتی ہے
اور بڑھ جاتی ہیں خاموش کھڑی دیواریں
بے صدا صدیوں کے چونے سے چنی دیواریں
جو کہ ماضی بھی ہیں مستقبل بھی
جن کے پیچھے ہے کہیں
آتش لمحۂ موجود کہ جو
لمحۂ موجود کی حسرت ہے
مری نظم کی حیرت ہے جسے
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں
گھومتا پھرتا ہوں میں برف بھری رات کی ویرانی میں
ان کہی نظم کی طغیانی میں
ہیں بھنور کتنے گہر کتنے ہیں
کتنے الاپیں پس پردہ لا
چشم نا بینا کے آفاق میں
کتنے بے رنگ کرے
کتنے دھنک رنگ خلا
کتنے سپنے ہیں کہ جو
شہر کے تنگ پلوں کے نیچے
ریستورانوں کی مہک اوڑھ کے سو جاتے ہیں
کتنی نیندیں ہیں کہ جو اپنے شبستانوں میں
ویلیم چاٹتی ہیں
جاگتی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.