ہے دلاتی یاد مے نوشی فضا برسات کی
دل بڑھا جاتی ہے آ آ کر گھٹا برسات کی
بندھ گئی ہے رحمت حق سے ہوا برسات کی
نام کھلنے کا نہیں لیتی گھٹا برسات کی
اگ رہا ہے ہر طرف سبزہ در و دیوار پر
انتہا گرمی کی ہے اور ابتدا برسات کی
دیکھنا سوکھی ہوئی شاخوں میں بھی جان آ گئی
حق میں پودوں کے مسیحا ہے ہوا برسات کی
ہوں شریک بزم مے زاہد بھی توبہ توڑ کر
جھومتی قبلہ سے اٹھی ہے گھٹا برسات کی
اصل تو یہ ہے مے و معشوق کا جب لطف ہے
چاندنی ہو رات کو دن کو گھٹا برسات کی
وہ پپیہوں کی صدائیں اور وہ موروں کا رقص
وہ ہوائے سرو اور کالی گھٹا برسات کی
پار اتر جائیں گے بحر غم سے رند بادہ نوش
لے اڑے گی کشتیٔ مے کو ہوا برسات کی
خود بخود تازہ امنگیں جوش پر آنے لگیں
دل کو گرمانے لگی ٹھنڈی ہوا برسات کی
وہ دعائیں مے کشوں کی اور وہ لطف انتظار
ہائے کن نازوں سے چلتی ہے ہوا برسات کی
میں یہ سمجھا ابر کے رنگین ٹکڑے دیکھ کر
تخت پریوں کے اڑ لائی ہوا برسات کی
ناز ہو جس کو بہار مصر و شام و روم پر
سر زمین ہند میں دیکھے فضا برسات کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.