سچائیاں اپنے وقت میں
کبھی جی نہیں پاتیں
سو آنکھوں نے ہمیشہ
لمحوں سے دھوکے کھائے
تمہیں کیسے رخصت کروں
کہ یہ بات امام ضامن اور دعا سے
بہت آگے بہت آگے ہے
ہتھیلیوں کے گرداب پھسلتے پھسلتے
بینائی کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
انگلیاں کانوں کو کہاں تک دستک سے دور رکھیں گی
دعاؤں کی چھتری میں اکثر
سوراخ رہ جاتے ہیں
میں تمہیں کون سی چادر تحفہ دوں
کہ آج کل جولاں ہے
عزت سے زیادہ کاغذ کمانے کے چکر میں ہیں
میں نے مٹھی کھول کر دیکھی
تو سب لکیروں سے زیادہ بانجھ نکلیں
میرے پاس سبز نہیں ہیں
کہ زرد پتوں کی وسعت نے خاک سے نیل تک
سرسوں کا موسم کا شت کر رکھا ہے
میرے پاس کچھ بھی نہیں
بس لوٹ آنا
کہ تمہارے آنے تک
میری آنکھیں تیرگی کی سلاخوں میں قید رہیں گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.