بس یہ بلائے عشق
یا تو خدا حسینوں کو کچھ خط و خال دے
ورنہ انہیں خدائی سے باہر نکال دے
یا رب مجھے نہ جاہ حکومت نہ مال دے
بس یہ بلائے عشق مرے سر سے ٹال دے
پیپے میں ڈھال دے کہ صراحی میں ڈھال دے
ساقی شراب پینے کی حسرت نکال دے
سمجھائے کون حضرت ناصح کو راز عشق
کس طرح ان کے دل میں کوئی دل کو ڈال دے
جمہور عشق ہے تو مساوات چاہئے
اس کو مجال دے تو ہمیں بھی مجال دے
ساقی یہ دام دینے میں گر رد و کد کریں
بڑھ کر جناب شیخ کی پگڑی اچھال دے
سوز فراق دے تو چکا اب جھلک دکھا
یہ کیا کہا رقیب سے میں دوستی کروں
یہ سانپ آستین میں میری بھی پال دے
ایسے تو بن سکو گے نہ تم مرکز نگاہ
اللہ ساتھ حسن کے کچھ چال ڈھال دے
بے اذن اس گلی میں جو پہنچا وہ پٹ گیا
اللہ کچھ رقیب کو فکر مآل دے
مجھ کو تمہارے عشق نے کندن بنا دیا
ایسا نہ ہو کہ اب یہ کھٹائی میں ڈال دے
اظہار عشق اس سے میں کرتا نہیں ظریفؔ
ڈر ہے چپت لگا کے نہ گھر سے نکال دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.