بستے میں بچپن
بھول گیا تھا بچپن کو میں
اپنی کتابوں کے صفحوں کے اندر شاید
اک کاغذ کے پرزے کو تہہ کر کے جیسے
رکھ دیتے ہیں
اب لوٹا ہوں برسوں بعد تو یوں لگتا ہے
پگڈنڈی جو لنگڑا لنگڑا کر چلتی تھی
لیکن جس کی مڑی تڑی انگلی تھامے میں
روزانہ اسکول کو جاتے
لوٹ کے آتے
سیدھا چلنا سیکھ گیا تھا
اب بھی وہیں ہے
گلی وہی ہے
نکڑ پر اب بھی اک بوڑھا
گاڑے میلے کپڑے کی جھولی پھیلائے
چہرے کی جھریوں میں چھپی آنکھوں سے
ہر آنے جانے والے کو تکتا
اک دوسرے کے مل جانے کی آس لگائے
دن بھر یوںہی بیٹھا رہے گا
تکتا رہے گا
پگڈنڈی بھی گلی بھی اور بوڑھا بھک منگا
سب میرے دیکھے بھالے ہیں لیکن مجھ کو
کیوں لگتا ہے جیسے ان برسوں میں سب کچھ بدل گیا ہے
وہ جو اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں کو
میرے سر پر رکھ کر مجھ کو دعائیں دیتے تھکتے نہیں تھے
میری بلائیں لے کر مجھ کو ایک نیا جیون دیتے تھے
وہ سارے تو اب دنیا کو چھوڑ چکے ہیں
بیٹھک اور چوپال سبھی چپ چاپ پڑے ہیں
اونگھ رہے ہیں
گاؤں کے باہر ڈھیلا ڈھالا
آدھا سویا آدھا جاگا
چوک جو اک سونا رستہ تھا
اب تو وہاں بازار سجا ہے
بھیڑ لگی ہے
شور و غل پڑا ہے
گاؤں شاید قصبہ بنتے بنتے رک کر
اک پل کے وقفے میں جیسے ٹھہر گیا ہے
اس گاؤں کو اپنا کہنے میں اب
مجھ کو کچھ سنکوچ سا ہوتا تو ہے لیکن
میں گر اپنا بستہ کھول کے
کھویا بچپن ڈھونڈھ نکالوں
لنگڑاتی پگڈنڈی کی انگلی تھامے اسکول کے اک دو چکر کاٹوں
تو پھر ممکن ہے میں
اس گاؤں کو اپنا کہہ پاؤں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.