بستیاں زندہ رہیں گی
تم زمیں پر ایک بھی سایہ اگر دیکھو تو سمجھو آسمانوں کے تلے یہ بستیاں زندہ رہیں گی
وہ جو ماتم کر رہے ہیں رو رہے ہیں اپنے بچوں کو
نہیں آتا یقیں ان کو وہ جیتے ہیں اب تک تتلیاں ان کے تعاقب میں گئی ہیں
وہ جو ماتم کر رہے ہیں اپنے بچوں کا
انہیں کہہ دو
پہاڑوں سے ندا آتی نہیں تو یہ نہ سوچیں شہر مردہ ہو گئے ہیں
آج کی تاریخ میں سورج نہ چمکے گر مکانوں پر
تو یہ مطلب نہ لو ظلمت مقدر ہو چکی ہے
رات کے اس پار بھی اک رات ہے لمبی انوکھی اور ڈراؤنی رات یہ سچ ہے
کہ اس کے ہاتھ میں تصویر ہے اک سیل حیرت کی
جو ماتم کر رہے ہیں ان سے یہ کہہ دو
لہو بہتا ہے جب آبادیوں میں تنگ اور تاریک رستوں پر
تو اک آواز آتی ہے
ہزاروں ہاتھ اٹھتے ہیں
فصیلوں سے پرے بھی چیخ کی آواز لمبی گونج بن کر کوندتی رہتی ہے صدیوں تک
ڈراؤنے لفظ گدھوں کی طرح اڑتے ہیں شہروں پر
کوئی کتنا بھی ڈر کر بند کر لے گھر کے دروازے
مگر وہ چین سے بتی بجھا کر سو نہیں سکتا
اندھیرے میں ہزاروں ہاتھ اٹھتے ہیں
اندھیرے میں ہزاروں چیختے ہیں بھوت بن بن کر ڈراتے ہیں
جو ماتم کر رہے ہیں ان سے یہ کہہ دو
سمجھ لیں آسمانوں کے تلے یہ جگمگاتی بستیاں زندہ رہیں گی
مر نہیں سکتیں
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 55)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.