بطخیں
یہ پیاری پیاری بطخیں چلتی ہیں کس انداز سے
جیسے حسیں شہزادیاں اٹھلا رہی ہوں ناز سے
ہے زرد گیندوں کی طرح ہم راہ بچوں کا کٹمب
تم روئی کے گالے کہو گولے کہیں ریشم کے ہم
ہیں رانیاں تالاب کی یہ اجلی اجلی بطخیں
بیلوں بھری جھیلوں کی ہیں ان سے ہی قائم رونقیں
تن دودھیا چکنے ہیں پر سینے تنے اکڑے ہیں سر
یا کشتیاں چاندی کی ہیں شفاف سطح آب پر
مرمر کے بت ہیں تیرتے پانی کے اوپر شان سے
پریاں یہ شوخ و شنگ سی آئی ہیں نورستان سے
ایسی سفید و خوش نما جیسے کھلونے برف کے
یا تختۂ بلور پر روشن ہیں مومی قمقمے
چونچیں سنہری کھول کر قیں قیں کی تانیں گھول کر
لہروں میں لہراتی ہیں یہ پنجوں کے چپو تول کر
نیلوفروں کا کنج ہے ان کی مسرت کا جہاں
نکھرے ہوئے سندر کنول دیتے ہیں ان کو تھپکیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.