Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بٹلہ ہاؤس

عاصم بدر

بٹلہ ہاؤس

عاصم بدر

MORE BYعاصم بدر

    گھڑی کی ٹک ٹک بول رہی ہے رات کے شاید ایک بجے ہیں

    بٹلہ ہاؤس کی ایک گلی میں موٹے کتے بھونک رہے ہیں

    ایک کھنڈر میں تیز روشنی چاروں جانب پھیل رہی ہے

    بغل میں لیٹا ساتھی میرا اب تک پب جی کھیل رہا ہے

    میں بھی اب تک جاگ رہا ہوں آنکھیں موندے سوچ رہا ہوں

    نیچے جانا کیسا ہوگا باہر کتنی سردی ہوگی

    قطب ستارہ کدھر کو ہوگا رات کی رانی کیسی ہوگی

    صبح کا سورج کہاں پہ ہوگا ابھی خدا کیا کرتا ہوگا

    سڑک کنارے سونے والے جوڑے کیسے سوتے ہوں گے

    ان کو مچھر کاٹتے ہوں گے

    نوم چومسکی لان میں بیٹھے بچے آخر کیسے ہوں گے

    ان کو کتے چاٹتے ہوں گے

    کیا ان بھوک زدہ بچوں کے خواب میں پریاں آتی ہوں گی

    کٹے پھٹے ہاتھوں کے تکیے کے نیچے کچھ رکھتی ہوں گی

    کیسی باتیں کرتے ہو جی کیا پریوں کا کام یہی ہے

    محل سرائے چھوڑ کے اب وہ سڑک کنارے آئیں گی کیا

    رات کے شاید ڈیڑھ بجے ہیں بٹلہ ہاؤس کا چوک کھلا ہے

    رات کو جاب سے آنے والے رات میں جاب کو جانے والے

    ایک ہاتھ میں لیے چائے کپ ایک ہاتھ میں چھوٹی سگریٹ

    سڑک پار کیوں دیکھ رہے ہیں

    بریانی کو ڈھونڈھ رہے ہیں

    ان کے پیچھے سڑک کنارے قبرستان کا گیٹ کھلا ہے

    اندر کتے گھوم رہے ہیں شاید کھانا ڈھونڈھ رہے ہیں

    باہر سگریٹ اور کافی ہے اندر کافی تاریکی ہے

    میں بھی اندر جھانک رہا ہوں ہولے ہولے سوچ رہا ہوں

    قبرستان کے اندر میں یہ لیٹرین کس نے بنوایا

    کیوں بنوایا

    شاید مردے رات میں اٹھ کر اس کے اندر جاتے ہوں گے

    حاجت پوری کرتے ہوں گے

    یا پھر سگریٹ پینے والے لڑکے اندر جاتے ہوں گے

    خاکی وردی گھر والوں سے چھپ کر سگریٹ پیتے ہوں گے

    ایک کنارے ادب کی ملکہ سب کچھ بیٹھی دیکھ رہی ہے

    آگ کا دریا چاندنی بیگم شیشے کا گھر لکھنے والی

    عینی آپا سوچ رہی ہے

    میرا قاری کیوں آیا ہے

    شاید اس کو گوتم شنکر طلعت نے الجھایا ہوگا

    یا پھر اس کو خیاباں کی چمپا نے پگلایا ہوگا

    یا پھر اس پاگل لڑکے نے شعور کی رو کو چھیڑا ہوگا

    یا پھر اس نے آگ کا دریا آدھا پڑھ کر چھوڑا ہوگا

    فلسفیانہ باتیں سن کر سارے مردے سوچتے ہوں گے

    کوئی اپنی خواب گاہ کو چھوڑ کے آخر کیوں آیا ہے

    میں بھی بیٹھا سوچ رہا ہوں

    اتنی رات کو کیوں آیا ہوں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے