گھڑی کی ٹک ٹک بول رہی ہے رات کے شاید ایک بجے ہیں
بٹلہ ہاؤس کی ایک گلی میں موٹے کتے بھونک رہے ہیں
ایک کھنڈر میں تیز روشنی چاروں جانب پھیل رہی ہے
بغل میں لیٹا ساتھی میرا اب تک پب جی کھیل رہا ہے
میں بھی اب تک جاگ رہا ہوں آنکھیں موندے سوچ رہا ہوں
نیچے جانا کیسا ہوگا باہر کتنی سردی ہوگی
قطب ستارہ کدھر کو ہوگا رات کی رانی کیسی ہوگی
صبح کا سورج کہاں پہ ہوگا ابھی خدا کیا کرتا ہوگا
سڑک کنارے سونے والے جوڑے کیسے سوتے ہوں گے
ان کو مچھر کاٹتے ہوں گے
نوم چومسکی لان میں بیٹھے بچے آخر کیسے ہوں گے
ان کو کتے چاٹتے ہوں گے
کیا ان بھوک زدہ بچوں کے خواب میں پریاں آتی ہوں گی
کٹے پھٹے ہاتھوں کے تکیے کے نیچے کچھ رکھتی ہوں گی
کیسی باتیں کرتے ہو جی کیا پریوں کا کام یہی ہے
محل سرائے چھوڑ کے اب وہ سڑک کنارے آئیں گی کیا
رات کے شاید ڈیڑھ بجے ہیں بٹلہ ہاؤس کا چوک کھلا ہے
رات کو جاب سے آنے والے رات میں جاب کو جانے والے
ایک ہاتھ میں لیے چائے کپ ایک ہاتھ میں چھوٹی سگریٹ
سڑک پار کیوں دیکھ رہے ہیں
بریانی کو ڈھونڈھ رہے ہیں
ان کے پیچھے سڑک کنارے قبرستان کا گیٹ کھلا ہے
اندر کتے گھوم رہے ہیں شاید کھانا ڈھونڈھ رہے ہیں
باہر سگریٹ اور کافی ہے اندر کافی تاریکی ہے
میں بھی اندر جھانک رہا ہوں ہولے ہولے سوچ رہا ہوں
قبرستان کے اندر میں یہ لیٹرین کس نے بنوایا
کیوں بنوایا
شاید مردے رات میں اٹھ کر اس کے اندر جاتے ہوں گے
حاجت پوری کرتے ہوں گے
یا پھر سگریٹ پینے والے لڑکے اندر جاتے ہوں گے
خاکی وردی گھر والوں سے چھپ کر سگریٹ پیتے ہوں گے
ایک کنارے ادب کی ملکہ سب کچھ بیٹھی دیکھ رہی ہے
آگ کا دریا چاندنی بیگم شیشے کا گھر لکھنے والی
عینی آپا سوچ رہی ہے
میرا قاری کیوں آیا ہے
شاید اس کو گوتم شنکر طلعت نے الجھایا ہوگا
یا پھر اس کو خیاباں کی چمپا نے پگلایا ہوگا
یا پھر اس پاگل لڑکے نے شعور کی رو کو چھیڑا ہوگا
یا پھر اس نے آگ کا دریا آدھا پڑھ کر چھوڑا ہوگا
فلسفیانہ باتیں سن کر سارے مردے سوچتے ہوں گے
کوئی اپنی خواب گاہ کو چھوڑ کے آخر کیوں آیا ہے
میں بھی بیٹھا سوچ رہا ہوں
اتنی رات کو کیوں آیا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.