بے کیفی
آج کچھ اور رنگ طاری ہے
ہر نفس زندگی پہ بھاری ہے
ماہ و انجم میں روشنی نہ رہی
لالہ و گل میں تازگی نہ رہی
یعنی دنیا میں دل کشی نہ رہی
ہم ہیں اور اپنی غم گساری ہے
حسن و الفت کا وہ فسوں نہ رہا
دل ہے دل کو مگر جنوں نہ رہا
دل وہی دل کے واردات وہی
ان کا اب بھی ہے التفات وہی
محل دیگر ہے واقعات وہی
لیکن اب روح کو سکوں نہ رہا
بے رخی وجہ انتقام نہیں
اس شکایت کا کوئی نام نہیں
سرگرانی ہے اور دل مغموم
گم ہے کیفتیوں میں ہر مفہوم
وجہ بے ربطی کچھ نہیں معلوم
ان سے اب نامہ و پیام نہیں
بے ثباتی نہیں اڑاتی ہے
آس بندھتی ہے ٹوٹ جاتی ہے
کیا طبیعت رہے جواں آخر
ہر یقیں بن گیا گماں آخر
اس فضا میں سکوں کہاں آخر
لب پہ گھبرا کے آہ آتی ہے
آخری یہ بھی اک گناہ کریں
ان سے ہم ترک رسم و راہ کریں
درد ہے زندگی محبت کی
انتہا یہ ہوئی محبت کی
ابتدا ہم نے کی محبت کی
وہ بھلا کس لئے نباہ کریں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.