بے خیالی
صبح تھی شام ڈھلنے کو ہے
دن کا نام و نشاں تک نہیں
کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ کب سورج اپنی جوانی گنواتے ہوئے
بادلوں کو جلاتے ہوئے
تھک کے تاریکیوں کے تسلط کے آگے تپش اور چمک ماند کر کے کسی دوسرے ملک میں جا چکا ہے
خبر ہے کہ
اب وہ وہاں پر لڑکپن میں ہے
اور جلدی جواں ہو کے پھر سے بڑھاپے میں جانے کو تیار ہے
سائنسی تجزیہ کار کہتے ہیں
یہ سب زمیں کی وجہ سے ہوا ہے
یہ ساکن نہیں
خیر ساکن تو کچھ بھی نہیں
کس قدر بے خیال آدمی ہوں میں کتنا برا ہوں
جسے آج کل دن کی عظمت کا احساس بالکل نہیں ہے
حالت حال ایسی ہے کہ
دن کا سوتے ہوئے بیت جانا
رات کا جاگتے جاگتے کاٹنا
اور مسلسل کسی بے کنارہ لہر کی طرح بہتے بہتے سکوں ڈھونڈھنا
بے طرح زندگی کے سبھی قاعدے توڑنا
ذہن کو یاد ماضی کی کانٹوں بھری سخت دیوار پر مارنا
اور پھر یاد کے زخم سے خوں کی دھاریں نکلتے ہوئے دیکھنا
کبھی بے خیالی میں ہنسنا
کبھی دل کے اندر بنی قبر پر بیٹھ کر گھنٹوں رونا
کبھی آنکھ سے بہتے آنسو چھپانا
کبھی اپنے ہارے ہوئے شخص کے بارے میں ہر کسی کو بتانا
مگر
جب کبھی ان خرابوں سے فرصت ملے سوچتا ہوں کہ
یہ زندگی ہے
تو کیا زندگی ہے
میں کتنا اکیلا ہوں
اب کوئی بھی تو نہیں جو کہے کہ اسے مجھ سے کچھ کہنا ہے
یا اسے مجھ سے کچھ کام ہے
صبح تھی
شام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.