رات ڈھلتے ہی اک آواز چلی آتی ہے
بھول بھی جاؤ کہ میں نے تمہیں چاہا کب تھا
کس صنوبر کے تلے میں نے قسم کھائی تھی
کوئی طوفاں کسی پونم میں اٹھایا کب تھا
میری راتوں کو کسی درد سے نسبت کیا تھی
میری صبحوں کو دعاؤں سے علاقہ کب تھا
ایک محمل کے سرہانے کوئی رویا تھا ضرور
پس محفل کسی لیلیٰ نے پکارا کب تھا
تم یوں ہی ضد میں ہوئے خاک در مے خانہ
مجھ کو یہ زعم کہ میں نے تمہیں ٹوکا کب تھا
تم نے کیوں پاکئی داماں کی حکایت لکھی
میرے سر کو کسی دیوار کا سودا کب تھا
یاد کم کم ہے نہ چھیڑو مرے مکتوب کی بات
وہ مروت تھی فقط حرف تمنا کب تھا
دل نہ اس طرح دکھا صاف مکرنے والے
مجھ کو تسلیم کہ تیری کوئی تقصیر نہ تھی
یہ بجا ہے کہ تجھے ذوق نشیمن نہ ملا
یہ غلط ہے کہ مجھے حسرت تعمیر نہ تھی
سنگ باری میں یہ شیشے کا مکاں کس کا ہے
اس در و بام میں خوشبوئے وفا کیسی ہے
کس کی آواز سے دیواروں کے سینے میں فگار
میرے معبود مرے گھر کی فضا کیسی ہے
چھاؤں دیتے نہیں آنگن کے گھنیرے اشجار
غم کی چھائی ہوئی گھنگھور گھٹا کیسی ہے
ایک کونپل پہ تھا انگشت حنائی کا نشاں
یہ لہو روتی ہوئی شاخ حنا کیسی ہے
کس کی تصویر ہے یہ جس پہ گماں ہوتا ہے
جانے کب بول اٹھے اف یہ ادا کیسی ہے
کس نے تکیہ پہ یہ کاڑھا ہے گرے کا مصرع
ہائے ٹوٹی ہوئی نیندوں کی سزا کیسی ہے
سوچ میں گم ہوں کہ کس کس کی زباں بند کروں
آج شاید در و دیوار کو ڈھانا ہوگا
جس میں تو ہے ترے وعدے ہیں تری قسمیں ہیں
کیا ستم ہے کہ اسی گھر کو جلانا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.