زمیں گھومی
ہوا بدلی
چلو موسم بدلتا ہے
سلیمؔ اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ
وہ دیکھو
چیونٹیوں کے پر نکل آئے
کیسے اڑتی پھر رہی ہیں
آج شان بے نیازی سے
کہ جیسے مطمئن ہیں
مکڑیوں کی سرفرازی سے
سلیمؔ اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ
تمہاری دور کی آواز کیسے گونج بن کر
پلٹ آئی ہے
جیسے بستیوں کے
سبھی گھر ہوئے ہیں
کوئی ہتھیار بھی سالم نہیں
نکیلے دانت
کانٹے
ڈنک
ناخن
حفاظت کے سبھی سامان جیسے چھن گئے ہیں
تبھی تو ظالموں سے
چند روزہ عافیت کی بھیک پا کر
خدا کی گود میں بے فکر سوتے ہیں
سمجھتے ہیں
کہ مظلومی کا یہ بہروپ ہی
فقرۂ قناعت کا بدل ہے
کوئی پتھر اٹھائے کھینچ مارے
دکھاوے کے لیے پتھر اٹھا کر چوم لیں گے
یہ کس دنیا میں بستے ہیں
یہ کس کا پاس رکھتے ہیں
خود اپنی موت کی نظارگی کا زخم دے کر
درندوں کی نگاہوں سے
الوہی روشنی کی آس رکھتے ہیں
سلیمؔ اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ
تمہارے راز تم ہی جانتے ہو
سب کچھ جھوٹ ہے اک ڈھونگ ہے
ہم میں کوئی
ایوب ہے بدھ ہے
حسین ابن علی اور نہ عیسیٰ ہے
بس اتنا ہے ضمیر اپنا کبھی کا بک چکا ہے
اندھیرے کی پنہ گاہوں میں
سحر سامری سے
آج سب مبہوت ہیں
ہاتھ پاؤں ذہن سب مفلوج ہیں
سونے کا بچھڑا بولتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.