بے بسی
یہ بھٹکتی ہوئی روحیں یہ نشیب اور فراز
تیری محفل میں فروزاں نہ ہوئی شمع نیاز
تجھ کو تکلیف سماعت رہی میری آواز
آنسوؤں سے نہ ہوئی سرد تری آتش ناز
مہر و الفت کے ترانے رہے خوابیدۂ ناز
عشق بیچارہ سمجھتا ہے جسے صبح چمن
پیکر صبح میں اک رات ہے ویرانے کی
گردش رنگ سے تزئین نظر کیا ہوتی
ہاں مری راہ تری راہ گزر کیا ہوتی
تجھ کو بیمار محبت کی خبر کیا ہوتی
ہجر کی رات ہم آغوش سحر کیا ہوتی
جس کو میں سوز حقیقت کا نشاں کہتا تھا
مہر تھی وہ کسی تاریک نہاں خانے کی
آج تک مل نہ سکی بار تمنا سے نجات
آج تک تشنۂ تعبیر رہا خواب حیات
کاش ہوتا نہ مرے ذوق فراواں میں ثبات
یہ مصائب کا جلوس اور یہ آفات کی رات
یہ عقیدوں کا تلاطم یہ اندھیرے کا خروش
میں نہیں لاش ہے گویا کسی پروانے کی
ایک اک جنبش لب آہ و فغاں کا پیغام
یہ سرابوں کے پجاری یہ غلاموں کے غلام
مجلس جور و جفا کار گہہ دانہ و دام
ہائے یہ تیری خدائی کا جہاں سوز نظام
ہیں یہاں کتنے اجالوں پہ دھندلکوں کے غلاف
دہر ہے یا کوئی تصویر سیہ خانے کی
اب نہیں باعث تسکیں تری آیات جمیل
سالہا سال سے انسان کی فطرت ہے علیل
ٹمٹماتی ہی رہے گی مرے دل کی قندیل
یہ سیاہی ہے کہ بڑھتی ہوئی ظلمت کی دلیل
ظلمت یاس ہے طاری نہ کر اب سعیٔ فضول
میرے آئینۂ کردار کو چمکانے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.