بیوہ کی جوانی
بیچاری کے آرام کی صورت ہی کہاں ہے
بیوہ کی جوانی بھی عجب آفت جاں ہے
ممکن ہے کہ پیری میں سکوں پا سکے ورنہ
جب تک وہ جواں ہے غم شوہر بھی جواں ہے
ممتا سے ہے مجبور کہ اولاد کی خاطر
جیتی ہے مگر جینا بہ ہر رنگ گراں ہے
خوں گشتگیٔ دل کی دوا ہو نہیں سکتی
کیا خاک تھمے خوں کہ جو آنکھوں سے رواں ہے
بے لوث محبت کا صلہ دائمی فرقت
اے صاحب انصاف یہ انصاف کہاں ہے
دل ٹوٹ تو سکتا ہے مگر جڑ نہیں سکتا
اب یہ بھی عجب سلسلہ شیشہ گراں ہے
فریاد کرے بھی تو کرے کس سے کہ آخر
فریاد کی قیمت نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے
یہ ملگجی چادر یہ لبادہ شکن آلود
اللہ نہ کرے تو کہیں بیوہ تو نہیں ہے
بھر آئی ہوئی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے آنسو
یہ نیچی نظر واجب سجدہ تو نہیں ہے
اس درد مجسم کو بھی تو گھور رہا ہے
شعلہ کہیں دوزخ کا ارادہ تو نہیں ہے
منزل کا نشاں کھو گئے گم کردہ رہی سے
یہ راستہ فردوس کا جادہ تو نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.