بھارت کے مسلمان
اس دور میں تو کیوں ہے پریشان و ہراساں
کیا بات ہے کیوں ہے متزلزل تیرا ایماں
دانش کدۂ دہر کی اے شمع فروزاں
اے مطلع تہذیب کے خورشید درخشاں
حیرت ہے گھٹاؤں میں تیرا نور ہو ترساں
بھارت کے مسلماں
تو درد محبت کا طلب گار ازل سے
تو مہر و مروت کا پرستار ازل سے
تو محرم ہر لذت اسرار ازل سے
ورثہ تیرا رعنائی افکار ازل سے
رعنائی افکار کو کر پھر سے غزل خواں
بھارت کے مسلماں
ہرگز نہ بھلا میرؔ کا غالبؔ کا ترانہ
بن جائے کہیں تیری حقیقت نہ فسانہ
قزاق فنا کو تو ہے درکار بہانہ
تاراج نہ ہو قاسمؔ و سیدؔ کا خزانہ
اے قاسمؔ و سیدؔ کے خزانے کے نگہباں
بھارت کے مسلماں
حافظؔ کے ترنم کو بسا قلب و نظر میں
رومیؔ کے تفکر کو سجا قلب و نظر میں
سعدیؔ کے تکلم کو بٹھا قلب و نظر میں
دے نغمۂ خیامؔ کو جا قلب و نظر میں
یہ لحن ہو پھر ہند کی دنیا میں ہو افشاں
بھارت کے مسلماں
طوفان میں تو ڈھونڈھ رہا ہے جو کنارا
امواج کا کر دیدۂ باطن سے نظارا
ممکن ہے کہ ہر موج بنے تیرا سہارا
ممکن ہے کہ ہر موج نظر کو ہو گوارا
ممکن ہے کہ ساحل ہو پس پردۂ طوفاں
بھارت کے مسلماں
ظاہر کی محبت سے مروت سے گزر جا
باطن کی عداوت سے کدورت سے گزر جا
بے کار دل افگار قیادت سے گزر جا
اس دور کی بوسیدہ سیاست سے گزر جا
اور عزم سے پھر تھام ذرا دامن ایماں
بھارت کے مسلماں
اسلام کی تعلیم سے بیگانہ ہوا تو
نا محرم ہر جرات رندانہ ہوا تو
آبادئی ہر بزم تھا ویرانہ ہوا تو
تو ایک حقیقت تھا اب افسانہ ہوا تو
ممکن ہو تو پھر ڈھونڈھ گنوائے ہوئے ساماں
بھارت کے مسلماں
اجمیر کی درگاہ معلیٰ تیری جاگیر
محبوب الٰہی کی زمیں پر تری تنویر
ذرات میں کلیر کے فروزاں تری تصویر
ہانسی کی فضاؤں میں ترے کیف کی تاثیر
سرہند کی مٹی سے ترے دم سے فروزاں
بھارت کے مسلماں
ہر ذرۂ دہلی ہے ترے ضو سے منور
پنجاب کی مستی اثر جذب قلندر
گنگوہ کی تقدیس سے قدوس سراسر
پٹنے کی زمیں نکہت خواجہ سے معطر
مدراس کی مٹی میں نہاں تاج شہیداں
بھارت کے مسلماں
بسطامیؔ و بصریؔ و معریٰؔ و غزالیؔ
جس علم کی جس فقر کی دنیا کے تھے والی
حیرت ہے تو اب ہے اسی دنیا میں سوالی
ہے گوشۂ پستی میں تری ہمت عالی
افسوس صد افسوس تری تنگئ داماں
بھارت کے مسلماں
مذہب جسے کہتے ہیں وہ کچھ اور ہے پیارے
نفرت سے پرے اس کا ہر اک طور ہے پیارے
مذہب میں تعصب تو بڑا جور ہے پیارے
عقل و خرد و علم کا یہ دور ہے پیارے
اس دور میں مذہب کی صداقت ہو نمایاں
بھارت کے مسلماں
اسلام تو مہر اور محبت کا بیاں ہے
اخلاص کی روداد مروت کا بیاں ہے
ہر شعبۂ ہستی میں صداقت کا بیاں ہے
ایک زندہ و پائندہ حقیقت کا بیاں ہے
کیوں دل میں ترے ہو نہ حقیقت یہ فروزاں
بھارت کے مسلماں
اسلام کی تعلیم فراموش ہوئی کیوں
انسان کی تعظیم فراموش ہوئی کیوں
افراد کی تنظیم فراموش ہوئی کیوں
خلاص کی اقلیم فراموش ہوئی کیوں
حیرت میں ہوں میں دیکھ کے یہ عالم نسیاں
بھارت کے مسلماں
ماحول کی ہو تازہ ہوا تجھ کو گوارا
درکار ہے تہذیب کو پھر تیرا سہارا
کر آج نئے رنگ سے دنیا کا نظارا
چمکے گا پھر اک بار ترے بخت کا تارا
ہو جائے گی تاریکیٔ ماحول گریزاں
بھارت کے مسلماں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.