بھٹکی ہوئی بیوہ
برسات کا موسم رات اندھیری دل پہ بھی ہیبت چھائی ہوئی
تھا پیڑ نظر آتا نہ کوئی گھر گھر گھٹا تھی آئی ہوئی
طوفان تھا باد و باراں کا بجلی بھی کڑکتی پھرتی تھی
سردی سے پھٹا جاتا تھا بدن وہ برف زمیں پر گرتی تھی
تھی راستہ بھولی اک بیوہ اور داغ جگر پر کھائی ہوئی
رگ رگ سے ٹپکتی حسرت تھی اور سر پہ اجل منڈلائی ہوئی
تھا بال رنڈاپا سوگ نیا کپڑے تھے پھٹے زخمی تھا جگر
ملتی تھی کوئی اس کو نہ پناہ پھر پھر کے پلٹ آتی تھی نظر
بپتا کی وہ ماری ایسی تھی دنیا میں کوئی دل دار نہ تھا
تھی ساری خدائی پیش نظر پر اس کا کوئی غم خوار نہ تھا
ماں باپ ہیں اس کے جنت میں اور سیر ہیں کرتے شام و سحر
اور گور میں بچے کھیلتے ہیں ساتھ اپنے پتا کے آٹھ پہر
یہ کھیلتا ان کو دیکھ سکے اک سودا سمایا تھا سر میں
سینے سے لگا کر پیار کرے تھا شوق یہ قلب مضطر میں
پہلو میں چھپائے حسرت کو صحراؤں میں تھی وہ گھوم رہی
رک رک کے قدم کو بڑھاتی تھی مستوں کی طرح تھی جھوم رہی
آخر وہ گری بے دم ہو کر کانٹوں سے لدی اک جھاڑی پر
تھا ہوش نہ اس کو اپنا کچھ تھا دل میں نہ اس کے خوف و خطر
جاتی ہے فضائے جنت میں دکھ درد وہ سارے بھولے گی
الفت کے ترانے گا گا کر جھولے میں خوشی کے جھولے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.